نوٹ: مضمون کا خلاصہ ترجمہ ہے۔

اس مضمون میں مختلف زاویوں سے بلوچستان کے عوام کے خلاف، اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے ” سواحل مکران کی ترقی” نامی سپر پلان کے کچھ احداف، ظاھری اور پوشیدہ مقاصد ،اور اس خطہ کی قدیم باشندہ، بلوچوں پر منفی اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے، یے منصوبہ ترقی کی نام پر بلوچوں پر کاری ضرب لگانے کی ایرانی ملا رجیم کا سپر پلان ہے ،جس میں مختلف آبادیاتی ،ثقافتی،مذہبی، عسکری اور اسٹریٹجیک احداف شامل ہے جسے ایران کی سپریم لیڈر علی خامنہ یی کے اسرار پر نافد کیا ہے، اس مہنگے منصوبہ کے اھم اہداف میں سے ایک”علاقائی تصفیہ”اور اس خطہ کی سمندری آبی گذرگاہ کا کنٹرول شامل ہے۔

اس پلان کے پہلے ایگزیکٹیو ڈائریکٹرحبیب اللہ صیادی جو نیوی کی سابق کمانڈر آف جیف تھے ،ان کے مطابق اس منصوبہ کے تحت یہاں ایک جدید “علوی تھذیب” کا بنیاد رکھنا اس کے اہم مقاصد میں شامل ہے،اور جیسا کے ساتویں ترقیاتی منصوبہ میں کہا گیا ہے، ایران کی سات فیصد آبادی(تقریباسات ملین) افراد کو شرق ھرمز سے گوادر کے سرحد تک جو ابھی بلوچ آباد ہیں جا بساناہے،ان کا پہلا مقصد قدرت کے عطا کردہ دولت اور بلوچوں کے ساحل و وسائل پر قبضہ کرنا اور اس خطہ کے اصل وارث و مالک بلوچوں کو مزید خط غربت و افلاص میں دھکیلنا ہے،اس منصوبہ کا بنیادی مقصد میں سمندر پر مکمل کنٹرول ،تیل و گیس کے برآمدی ڈھانچہ کو خلیج فارس سے باہر منتقل کرنا آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا بنیاد ڈالنا تا عالمی عدم تحفظ کے دوران اس کی تجارتی بھاؤ متاثر نہ ہو اور ایران اپنے سلطہ جویانہ مقاصد کو خطے اور دنیا میں تکمیل کرے،جو ھم نے پہلے ذکر کیا کے اس سپر پلان کے نتیجہ میں بلوچ جو صدیوں سے ماہیگیری، زراعت اور علاقائی تجارت سے امرار معاش کرتے تھے اپنے روزگار کھو دیتھے ہیں اور خط غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

تہذیب علوی کے اغراض و مقاصد میں بنیاد پرست شیعہ فاطمیون گروپوں کو افغانستان سے اور زینبیون کو پاکستان سے لانا اور بلوچ سرزمین پر بسانا ہے دونوں گروپس ایران کی پراکسی جنگوں میں شریک رہ چکیں ہیں، باہر سے لوگوں کو لانے کے لئے حکومت مقامی لوگوں کے آبائی زمینوں کو ضبط کرکے (جو مکررا ہورہائے) ان کو دربدر اور خاک بہ سر کرنے پر مجبوز کرتاہے۔

بلوچ عوام کے مشکلات اور مصائب میں کئی گناہ اضافہ ہوجائے گا، سماجی اور سیاسی مواقع پر جہاں وہ اب اکثریت میں ہیں اور ان کے پاس کوئی انتظامی اختیار نہیں ہے معاملات و معادلات میں سیاسی و سماجی طور پر محروم ہو جائینگے اور اپنے علاقہ کی سماجی اور سیاسی مسائل کی تشکیل اور مشکل حالات میں اس کے حل میں اپنا اھم کردار کھو دیں گے ریاست نے بلوچ شہریوں کو تعلیم اور ترقی سے محروم کرکے انہیں قتل کرنے اور ماضی کی طرح ملک کے اندر برتھ سرٹیفکٹ کے بغیر لاکھوں بلوچ شہریوں کو شناختی کاغذات نہ دینے کے مقصد سے دشمنانہ اقدامات کا سہارا لیا ہے سیاسی اور مذھبی وجوہات کے بنا پر اب تک روکھا ہے یہ عمل جاری و ساری رہے گا آبادکاری کے نتیجے میں حکومتی سطح پر دفاتر اور ادارات کے تمام اھلکار پھیلے سے زیادہ بنیاد پرست متعصب اور غیر بلوچوں کے سپرد کردیے جائیں گے بے روزگاری کے وجہ سے مقامی لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوں گے اور زندگی کرنے کے لئے پر خطر کاموں میں رخ کرتے ہیں بہت سے نوجوان اسکول چھوڑنے اور نشہ کے لت میں پڑ جاتے ہیں اور کثیر تعداد ایندھن (تیل کے کار و بار) میں اپنے زندگی کھودیتے ہیں۔

اس سپر پلان کے نتیجہ میں بلوچ علما او دانشوروں پر دباؤ موجودہ وقت سے بہت زیادہ بڑجائے گی،لوگ مذہبی رسومات ادا نہیں کرپائیں گے ثقافتی، حتی کہ ان کے روایتی لباس پہننے پر بھی سختی سے پابندی ہوگی ہر سطح پر سیکورٹی اور عسکری آلات بلوچ عوام کی زندگی میں کھلم کھلا مداخلت کریں گے ان کی خواہشات کی مطابق زندگی گزارنے پرمجبور اور معمولی سے احتجاج پر سخت ترین طریقہ سے جبر کریں گے مختلف حربہ سے بلوچ شھریوں کی پھانسیوں میں نمایان اضافہ ہوگا، سر کردہ عوامی و سماجی شخ‍صیات اور احتجاجی تحریکوں کو دبانے کے لیے حکومت کے ہاتھ کھلے ہوں گے۔

حاکمیت اس بلوچ دژمن منصوبہ کی کامیابی کے لیئے آپنے تمام چال وسائل و ذرائع  کی استعمال میں تیزی لاتا ہے اس سپر پلان کو منصوبہ کی تحت پایہ تکمیل تک پہچا دیا جاسکے یہ سپر یا میگا پلان کسی قوم یا بلوچستان کی ترقی نہیں ہے بلکہ بلوچوں کو اقلیت میں بدلنے کا اور نسل کشی کا سپر پلان ہے جو دشمن کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *