کمرے کے اندر موجود زامر بیٹھے بیٹھے بیزار ہو کر ُاٹھ کر کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی۔سردیوں کی شام کتنی جلدی سنسان ہو جاتی ہے؟۔اس نے سوچا

صحن میں چاروں طرف باغ اور بڑے درخت لگے تھے۔۔۔دور بانس پر لٹکی ایک بلب اپنی اد ھ مواروشنی کوپھیلانے کی اپنی جان جھوکم میں ڈال رہی تھی۔ہوا کا جھونکا چلتا تو درختوں کی آواز سے شام کی نحوست اور بڑھنے لگتی۔۔سردیوں میں اکثر بجلی چلی جاتی ہے ،اس وقت بھی کبھی بلب جلتی تو کبھی بجھ جاتی ۔۔زامر باہر کے نظارے سے بھی اب تھک چکی تھی ۔بجلی چلی جانے سے کمرے میں شدید اندھیرا اور گھٹن کا ماحول تھا۔وہ ا س تاریک رات اور سردی کی وجہ سے اپنی بستر پر بیٹھ گئی۔

زامر کے تین بچے تھے۔۔۔۔ِزر ِبرگ،نودان،سامی۔
تینوں کے چہرے پر سکون تھے جو کہ گہری نیندمیں سو رہے تھے۔ زامر انھیں دیکھتے ہوئے ماضی کے جانے کن اوراق کو پلٹتی رہی۔۔۔۔

شہاز کے رشتے کیلئے اماں نے اپنی بہن کی بیٹی کو پسند کیا تھا۔۔پر شہاز ابھی انکے لیے راضی نہ تھا اسکی کوئی جاب نہیں لگی تھی۔

حالات کی سختی کی وجہ سے اس نے محنت مزدوری شروع کر دی۔۔۔۔ شہاز پڑھا لکھا ہونے کے باوجودبے روزگارتھا اور وہ روزگار کی تلاش میں دن بھرپھرتا رہتاتھا۔۔محلے کے کچھ دوست شاہ صاحب کے ساتھ تفتان کیلئے جایا کرتے جن سے انکی اچھی خاصی کمائی ہو جاتی تھی ۔جو اشیائے خوردونوش ودیگر اسمگلنگ کی سامان لاد کر ملک میں فروخت کیا کرتے تھے۔۔

شہاز نے اماں کو راضی کیا اور انکے گروہ میں شامل ہو گیا۔۔

پر شہاز کی شومی قسمت اس دفعہ پولیس نے چھاپہ مارا اور سارا مال لوٹ کر لے گئے۔۔۔۔چھ سات ماہ کام کرنے کے بعد بھی شہاز کی قسمت نہیں بدلی۔۔۔۔اماں نے بضد اسکا رشتہ کر دیا۔۔ اور پائی پائی جوڑ کر دلہن کا جہیز بنانے لگ گئی۔۔۔

ابا کی تنخواہ16 ہزار تھی گھر میں چھ بیٹیاں اور تین بیٹے تھے۔سارا کچھ ان کے اسکول وین میں لگ جاتا ۔جو تھوڑا بہت بچ جاتا وہ محلے کے ماما مزار کا ادھار چکتا کرتے جس سے پورا مہینہ آٹا گھی چینی لایا جاتا۔۔۔۔

اماں نے دن کے 50 روپے جمع کرکے قسط پر ایک الماری خریدی تھی۔ 25 ہزار میں جس کے لیے ماہانہ 1000روپے جمع کرکے قرضہ چکتا کرنے لگی۔

شہاز اب ایک لائن مین تھا جودفتر میں بجلی کا کام کرتا تھا۔۔۔۔۔کوئٹہ کی سردی شدید تھی، ان دنوں گیس تھا ہی نہیں، شہاز نے سلینڈر جلا کر پانی ابلنے کے لیے رکھ دیا۔ساتھ میں چند دوستوں کی آپسی بحث ہوئی جسکی وجہ سے گرم پانی پورے کا پورا شہاز کے ہاتھوں پہ جا گرا ۔۔۔

اُبلتاپانی ہاتھ پر گرنے سے اسکے ہاتھ بری طرح جھلس گئے۔۔۔۔اماں نے اس کے زخموں پر کپڑا باندھ دیا۔۔۔۔چھ ماہ تک جلے ہوئے ہاتھ کی وجہ سے کوئی کام نہ کرسکا۔۔۔۔اسکے بعد اب زیارت کی جانب سڑکیں توڑنے کے لیے روزانہ اجرت پر 300پہ کام کرنے لگا۔۔۔۔پتھر توڑنے کیلئے ضرب بہت زور سے لگانا پڑتی ہے جسکی وجہ سے جلے ہوئے زخم تازہ ہو جاتے اور وہ کمائے ہوئے 300روپے مرہم پٹی پر خرچ ہو جاتے۔۔۔۔ کئی دن فاقوں سے گزارنا پڑتا۔۔۔ خضدار کی رہائشی ہونے کی وجہ سے کسی کے ساتھ سوال بھی نہ کرتا۔۔۔چند روز چھٹی ملنے کے بعد دوبارہ کوئٹہ آیا۔۔۔

شہازسردی کو برداشت نہیں کرپاتا تھا۔اسکے ہاتھ بالکل نیلے اور سن ہو جایا کرتے تھے۔۔۔۔شام کو بے حال ہو کر گھر واپس آتا تو اماں اپنے آنسو چھپا کر اس کے جلے ہوئے ہاتھ ایک لوٹا میں رکھتی جس میں گرم پانی ڈالا جاتا تاکہ جسم کا درجہ حرارت برابر ہو سکے۔۔۔۔یوں وقت گزرتا گیا۔۔۔۔

علاقے میں یکے بعد دیگرے فوتگیاں ہونے لگیں۔۔شہاز کی ساس نے پیغام بھیجا کہ اسکی بیٹی کی رخصتی آنے والے اتوار کو کر دی جائے۔۔۔۔دلہن کے لیے دو جوڑے کپڑے لیے ۔۔۔۔اماں نے کباڑی سے کمرے کے لیے ڈھائی ہزار میں ایک چٹائی خریدی ۔۔۔۔۔قسطوں پر خریدا ہو ایک الماری تھا ۔۔ کمرے میں اور کچھ نہیںتھا۔۔۔۔رات 9 بجے نکاح مقرر ہوا۔۔۔۔۔

پیسے نہ ہونے کی وجہ سے شادی میں کوئی اہتمام نہیں کیا گیا ۔نہ ہی شہاز کیلے نئے کپڑے سلائے جا سکے۔شہاز کے نکاح میں ابا ،چچازاد بھائی اور اس کے ساتھی تھے اسکے علاوہ کوئی نہیںتھا ۔۔۔۔اتنی سادگی سے شادی ہوئی کہ ایک کپ چائے بھی ان چار افراد کو نہیں پلائی گئی۔۔۔۔۔

شہاز کے شادی کے بعد سامی کا جنم ہوا اور ساتھ شہاز کی نوکری بھی لگ گئی۔۔۔۔پر تنخواہ 7 ہزار ہونے کی وجہ سے اخراجات پورے ہونے سے رہے۔۔۔۔سامی اکثر بیمار رہتی۔۔۔۔ایک سال بعد ِزرِبرگ کاجنم ہوا۔۔۔۔شہازاورزربرگ میں اچھی دوستی تھی۔ ۔۔۔۔ زربرگ ڈیڑھ سال کا ہوا تو شہازکو روزگار کی تلاش میں وطن چھوڑ کے جانا پڑا۔۔۔۔

جب شہاز پردیس میں تھا تو اسکا بیٹا پیدا ہوا ۔۔نودان۔۔۔۔۔۔ جسکا نام شہاز نے بڑے دل سے رکھا۔۔۔۔شہاز اور نودان کی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔

چھ ماہ بعد شہاز کی ملاقات نودان سے ہوئی پر شہازآخری ملاقات کرنے آیا تھا۔۔۔۔آخری دیدار۔۔۔شہاز کو پردیس میں بے گناہ شہید کر دیا گیاتھا۔۔۔۔۔زامر26سالہ جواںعورت بیوہ ہوچکی تھی۔ سامی ِزربرگ اور نودان اب شہاز کے بچے کے بجائے یتیم بچے کہلائے جانے لگے۔۔۔۔۔

حدت پوری ہونے کے بعد زامر کو اپنے بچوں کی پرورش کیلئے باپر نکلنا پڑا۔۔۔

باہرکی تیز تلار اور سخت دنیا شہاز کے بغیر کتنی تکلیف دہ تھی اب اسے ادراک ہونے لگا۔۔۔۔بچوں کا اسکول میں داخلہ نہیں ہو پارہا تھا۔۔۔۔بلوچی رسم کے مطابق زامر کا زبانی نکاح پڑھایا گیا تھا۔ اسکا نکاح نامہ نہیں بنا تھا۔ اسکول میں ڈیتھ سرٹیفکٹ مانگا جارہا تھا۔۔۔۔بیوہ ہونے کا دکھ اپنی جگہ، بیوہ ہونے کے بعد نکاح نامہ بن کا آنا زامر کے کلیجےکو جیسے خنجر کے وار سے بار بار مارنے جیسا تھا۔۔زامر کمرے میں بیٹھی جانے کیوں چپ سادھے لیٹی تھی اسے اپنا جسم ٹوٹتا ہوا محسوس ہونے لگی ۔۔۔

جانے شہاز کے ساتھ کیا ہوا ہوگا؟۔۔۔۔اس نے آخری بار اپنے کس بچے کو آواز دی ہوگی۔۔۔۔؟جس خاندان کیلئے اسے پردیس جانا پڑا۔۔۔۔اس نے پیچھے مڑ کر کتنے چہرے کتنی خواہشات کو یاد کیا ہوگا؟۔۔۔۔ماضی کی یادیں دل ودماغ پرضربیںلگارہی تھیں۔۔۔۔

سامی اب تیرہ سال کی ہو چکی تھی۔۔۔۔سامی کا داخلہ شہر سے باہر ایک کیڈٹ اسکول میں کر دیا گیا۔۔تاکہ اسے احساسِ یتیمی تنگ نہ کرے۔۔ وہ نویں جاعت کی طالبہ تھی۔۔شہر سے باہر ہونے کی وجہ سے گھر کی طرف سے ایک موبائل فون دیا گیا تھا جس سے کبھی کبھار گھر سے زامر اپنی بیٹی سے حال احوال کیا کرتی۔۔۔۔

زامر ہر تین ماہ بعد ملاقات کیلئے جاتی۔۔۔۔اس دفعہ دوبارہ اتوار کا دن مقرر ہوا تھا۔۔۔۔زامر جب وہاں پہنچی توسامی چپ چپ سی تھی۔پوچھنے کے باوجود اس نے کچھ نہیں بتایا۔۔۔۔۔
اسکول وارڈن نے زامر کوپرنسپل کے کمرے میں بلایا۔جہاں سامی کی شکایت موصول ہوئی کہ پڑھائی میں دھیان کم دینے لگی ہے اور فون کا استعمال زیادہ ہو چکا ہے۔۔۔۔
زامر نے جب سامی سے بات کی تو اس نے سرے سے منع کر دیا۔ زامر چلی گئی۔۔۔۔ایک ہفتے بعد اسکول سے کال آئی جسکے لیے اس کو دوبارہ جانا پڑا۔۔۔جہاں سامی کو ادھ مرا پایا۔۔۔۔جسم کے بہت سے حصوں کو کٹ لگا تھا۔۔۔۔جسم میں جگہ جگہ نیل پڑے تھے۔۔۔۔پولیس کے بغیر ہسپتال انتظامیہ اسکو داخل نہیں کر رہی تھی ۔

اسکول کی دوسرے جانب الو ئوںکے جھنڈ کی نحوست آوازوں سے خوف بڑھنے لگا ۔زامر بے سدھ پڑی تھی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے۔۔اسکول انتظامیہ نے سامی کو ہسپتال انتظامیہ کے حوالے کرکے زامر کو شہر غیر میں چھوڑ دیا۔۔۔۔

سامی پچھلے ایک ماہ سے فون میں بلا وجہ گھسی رہتی ۔۔دیر رات تک جاگتی۔۔۔۔اسکول میں غیر حاضر رہنے لگی۔۔۔۔زلیخہ اسکے قریبی دوستوں میں سے ایک تھی اس نے غیر حاضر رہنے کی وجہ سے پوچھی تو سامی نے جواب نہیں دیا۔۔۔۔کچھ روز بعد دوبارہ پوچھنے پر بتایا کہ پچھلے ماہ سےعارف نامی لڑکا مجھے دھمکیاں دے رہا ہےاور ملنے کا اسرار کر رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس نے ملنے کا اظہار کیا ۔۔جس کے لیے میں نے اسکے گال پر تھپڑ ثبت کیاتھا۔۔اب دوبارہ اسرار کیے جارہا ہے۔۔

چند روز بعد زلیخہ نے عارف کے متعلق پرنسپل کو تب بتایا جب سامی ہاسٹل سے 14گھنٹے غائب رہی ۔اسکی تلاش کے بعد اس کو ہوٹل کے ایک کمرے میں زخمی پایا گیا ،تب تک عارف مفرور تھا۔۔۔۔
پولیس کاروائی میں پتہ چلا کہ عارف نامی لڑکا اپنا بدلہ لینا چاہتا تھا جو اس نے لے لیا۔۔۔۔

زامر کا سارا خاندان اس پہ ملبا ڈال کہ بیٹھے رہے کہ ماں کے بے جا لاڈ پیار نے سامی کو بگاڑ دیا۔۔سامی خاندان کی سب سے لاڈلی بیٹی تھی ۔۔جس سے آج کوئی بات کرنا پسند نہیں کرتا ۔وہ خود بھی پشیمان تھی۔۔۔۔اور بار بار خود کشی کرنے پر آمادہ ہوتی رہی۔۔۔۔اسکول چڑوا کر اسکو گھر لایا گیا۔

شہاز تم،تم کب آئوگے؟تمہیں پتہ ہے بچپن میں سنی کہانیوں میں شہزادہ ار شہزادی ہزاروں سال جیتے ہیں۔ مجھے یقین تھا تم ایک دن ضرور آئو گےتمہیں پتہ ہےتم نے میرے بچوں سے باپ بولنے کا حق چھین لیاتھا۔جب کبھی انکے سامنے کوئی اپنے باپ کو آواز دیتا یا کسی خواہش کا اظہار کرتا ہے، میرے بچے اسکو کتنی حسرت سے دیکھتے ہیں؟پچھلے دنوں نودان کا دوست اپنے باپ کے ساتھ سائیکل لینے گیا تھا۔نودان کی آنکھیں نمی سے بھری تھیں۔۔۔۔۔ کہنے لگا اماں میرے ابا ہوتے ہم دونوں بھی ساتھ چلتے ۔زامر اپنے آپ سے بڑبڑانے لگی۔

اماں میں نے 1500جمع کر لیے ہیں۔ اب سائیکل لینے کیلئے کس کو بتائوں گا۔ اب تم آ گئے ہو تو اسکی خواہش پوری کر دینا۔ زامر نودان کی باتوں کو یاد کرکے افسردہ ہونے لگی۔

شہاز میرے لیے زندگی بہت مشکل ہے ،تمہاری جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔۔۔۔ تمہارے گھر آنے کے بعد میں کبھی دکھی نہیں ہوئی۔ کیسے بھی حالات تھے ہم نے مل کر ان کامقابلہ کیا۔۔۔۔۔ایک عورت اپنے سارے دکھ اپنے شریک حیات کے ساتھ بیان کرتی ہے۔۔۔میرے پاس کوئی ایسا ساتھی بھی نہیں جس سے میں اپنے دکھ بیان کر سکوں۔۔اماں ابا بہنیں دوست سب ہیں پتہ ہے تمہارے ساتھ تو میں اپنے اماں ابا کی شکایت بھی کر سکتی تھی۔۔ پر اب تمہیں ایک لمبی فرصت ہے جنہوں نے مجھے خون کے آنسورلایا،اب تم آگئے ہو نا اب مجھے کوئی کھ نہیں دیگا۔وہ اپنے آپ میں باتیں کرنے لگی۔

ٕیوں لگتا ہے ایک سیاہ دلدل ہے جس میں گرتی جارہی تھی اور کوئی سہارا نہیں ۔۔۔سامی میری بچی ہے، کونسی ماں چاہے گی اسکی اولاد کے ساتھ ایسا حادثہ ہو اور دنیا اس ماں کو اسکی پرورش کو اسکی بچی کو طعنے دے دے کر مار دیں۔۔۔اب یوں لگتا ہے جیسےجن بیٹیوں کے باپ نہیں ہوتے انکو یونہی لاوارثوں کی طرح بیچ سڑک کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ جنکی مائیں بدترین پرورش کرنے والی ہوتی ہیں ۔ایسی بیٹیاں معاشرے کیلئے طوق ،لعنت بن جاتی ہیں اور انکی بیوائیں بد کردار بد چلن عورتیں۔۔۔۔۔زامراپنے آپ کو کھوستی رہی۔

جنکی فریاد آہ و بقا سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔۔۔۔جن کو خدا اور معاشرہ ملکر لاوارث کر دیتی ہیں۔۔۔۔ان کی پاک دامنی ، صفائیاں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔۔۔۔۔شہاز !سر پہ خدا کا ہاتھ نہ رہے تو گزر بسر ہو جاتا ہے ،باپ کے بغیر ایک خاندان یتیم ہو جاتا ہے اور پتہ ہے باپ محض فرد نہیں ہوتا۔۔۔۔ وہ اس خاندان کا بھگوان ہوتا ہے جسکی پراتھنا ساری عمر کی جائے کم ہے اور جب بھگوان نہ رہے تو دنیا میں کوئی بھی نظام برقرار نہیں رہتا۔۔۔۔شہاز تم ہوتے تو اپنی بیٹی کو سمجھاتے۔۔۔۔اس حالت میں اسکا سر اپنے سینے پہ رکھ کر کہتے کہ میری بچی جب تک میں زندہ ہوں کسی میں جرأت نہیں جو تمہارے کردار پر سوال اٹھائے۔۔۔۔۔تم پڑھوگی بھی اور ایک کامیاب فرد بن کر انکو دکھائوگی کہ وہ غلط تھے اور شہاز کا خون پاک اور سچا تھا۔۔۔۔۔زامراپنی ماضی میں کھوکر اپنی قسمت کو کوس رہی تھی۔

کھڑکی کے پٹ یکدم ہوا کے جھونکے سے بند ہو گئے ۔ زامر کی نیند کھل گئی اور ہاتھ میں پڑی ڈائری ہاتھ سے گر گئی۔

ٹھنڈی آہ بھر کے دل ہی دل میں کہنے لگی۔ شہاز تم اتنی جلدی کیوں چلے گئے؟۔۔۔۔۔

اس نے بلبلا کر گھٹنے پیٹ میں اڑا لیے۔۔اورصبح کا انتظار کرنے لگی۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *