“پروفیسر رزاق زہری، جو خضدار میں ہمیں انٹرمیڈیٹ کے دوران صرف اور صرف بائیولوجی اور کیمسٹری پڑھاتا تھا، اس کی ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں شہادت نے میری زندگی کی یکایک کایا پلٹ دی۔” ڈاکٹر صبیحہ کی 5 سال پہلے میرے ساتھ ایک مختصر نشست میں گفتگو۔

وہ ایک چھوٹی بچی تھی، جو عام بچیوں کی طرح ایک کیریئر بنانے کے لئے اکیڈمی میں داخلہ لیتی ہے۔اس کی استاد شہید رزاق زہری، اس کے لئے ایک روحانی باپ کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس سے وہ بڑی امیدیں باندھتی ہیں کہ وہ اس کو اس کی پوری کیریئر میں مدد دے کر ایک منزل تک پہنچا دے گا۔

11 جولائی 2013 کو جب وہ معمول کے مطابق کلاس لینے جاتی ہے، وہ اپنے شفیق استاد سے نئے باب پڑنے کے لئے بے تاب ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی کل کے لیکچر پر کچھ سوالات نوٹ بک پر درج کر چکی ہوتی ہے کہ استاد سے ان کے جواب اور وضاحت دریافت کروں گی، جب وہ اکیڈمی میں داخل ہوتی ہے، تو اکیڈمی بند ہونے پر اسے جواب ملتی ہے کہ پروفیسر رزاق کو آج شہید کر دیا گیا ہے، اور آج کے بعد یہ دروازہ علم کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند رہے گی۔ یہ بری خبر اسے اتنی شد و مد سے جنجھوڑتی ہے جیسے اسرافیل نے اس دنیا کے خاتمے کی بانسری پھونک دی ہو، جیسے کسی ملک پر ایٹمی حملے کی سائرن بھج رہی ہو۔ وہ اندوہناک لمحات اسے سوچنے اور فکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ واقعی بلوچوں کی کوئی دشمن ہے جو انہیں زندگی کے تمام آرام اور آسائش سے محروم کرنے کے بعد بھی ان کا جی نہیں کرتا کہ کوئی استاد انہیں فزکس ،کیمسڑی پڑھا کر انہیں دور جدید کے تقاضوں سے آشنا اور ان کے مطابق تیار کردے تاکہ وہ اپنے لئے روزگار کے کچھ مواقع تلاش کر کے باعزت زندگی گزار سکیں۔

یہاں سے اس کی زندگی میں وہ تاریخی تبدیلی رونما ہوتی ہے جو کسی انسان کو انفرادیت کے خول سے نکال کر اجتماعی شعور کی وسیع آسمان اور بلندیوں تک پہنچا دیتی یے، جو انسان کو ایک انتقامی جذبہ دل میں لیئے ایک شعوری سفر کی طرف راغب کرتی ہے۔

یہ بات حقیقت ہے کہ جب انسان اپنے اوپر ظلم سہتا ہے۔ تو عام انسان سے نکل کر نیلسن مینڈیلا، ہوچی منہ، علی شریعتی، فیوڈل کاسترو، نواب خیر بخش مری، ڈاکٹر ماہ رنگ اور ڈاکٹر صبیحہ جیسے عظیم انسان بننا لازمی امر ٹھہرتا ہے اور جب انسان ظلم دیکھنے کے بعد بھی بے حسی کے گندے تالاب میں غوطہ زن رہتا ہو، تو وہ زندگی بھر ایک عام سا انسان ہی رہتا ہے اور زندگی اور دنیا اس کے لیئے بے معنی ہوجاتا ہے۔

جب بھی کوئی ظلم ہوتا ہے تو اس کے بعد ردعمل کا ظہور فطری عمل ہوتا ہے، اس ردعمل کے دوران یا بعد میں معاشرہ اپنے بطن سے ہیرو جنم دینا فرض گردانتا ہے۔

کوئی طاقت جب کسی جگہ جارحیت پر اترتی ہے تو اس کے لئے اس جارحیت کے بعد مرتب ردعمل اور پھٹنے والا لاوا زیادہ پریشان کن ہوتے ہیں جن کو سنبھالنا ان کے بس میں نہیں رہتا ہے۔ طارق علی کے مطابق، جب کوئی امریکی اعلی جنرل عراق حملے کے بعد پہلی آفیشل دورے پر آتا ہے، تو وہ ان بچوں کو بھلاتا ہے جن کے والدین امریکی حملے کے دوران مارے گئے تھے، ان یتیم بچوں پر مختلف قیمتی تحفے تقسیم کرتا ہے۔ جب کوئی صحافی اس جنرل سے سوال کرتا ہے کہ ان بچوں کو آپ کیوں اتنے تحفوں سے نواز رہے ہو، جن کے والدین کے خون سے آپ کے ہاتھ رنگین ہیں؟ تو جنرل دکھ بھرے لہجے میں جواب دیتا ہے کہ امریکہ کو سب سے زیادہ خوف اور پریشانی ان بچوں سے لاحق ہے، جن کے سامنے ان کے والدین کو ہم نے مارے اور ان کے اندر انتقام کے جذبات اور اس کے بعد آنے والا ردعمل کو سنبھالنا ہم سمیت کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی۔

اسی طرح احمد رشید کہتا ہے کہ اسامہ بن لادن سے کوئی استسفار کرتا ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے آپ کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی پر اکسایا، تو اس نے تفصیلی جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب 1982 کو یہودی لبنان کے اندر ایک بڑے کاروباری ٹاور کو اُڑاتے ہیں، تو اسی دن میرے اندر ایک انتقامی جذبہ نے سر اٹھائی کہ مجھے بھی یہودیوں کے کوئی بڑی کاروباری ٹاور پر حملہ کرکے زمین بوس کرنا ہے تاکہ انہیں احساس دلایا جائے کہ مسلمان لاوارث نہیں ہیں اور میں نے وہ بدلا ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کی شکل میں لے لی اور ساتھ ساتھ یہودیوں کے مفادات کو دنیا کے کونے کونے میں نقصان پہنچانے کے کوشش شروع کی۔
مزید برآں، لیز لی ٹن اپنی کتاب آفٹر دی پروفیٹ میں زکر کرتی ہے کہ “جنگ جمل” کی وجہ سے اتنی بڑی نفرت اور انتقام کے لہریں آنے والی نسلوں میں سرایت کرگئی کہ جس کے انجام بغداد، شام اور تہران کی گلیوں میں سنی اور شیعہ فسادات کے نام پر لاکھوں انسانوں کی قتل اور غارتگری کی شکل میں برآمد ہوئی۔

اسی طرح، جب کارل مارکس سے کوئی پوچھتا ہے کہ آپ کے مطابق شدید ظلم کے دوران لوگ اٹھتے ہیں تاکہ اس مظالم کا خاتمہ کریں پھر آپ کیوں کہتے ہو اور آپ اس ردعمل کے تحریک کو عام لوگوں پر چھوڑ دو کہ وہ خود سامنے آئیں، اس کے جواب میں مارکس کہتا ہے کہ یہ سوال مجھ سے پہلے سقراط، پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر ہیروز سے بھی پوچھا گیا کہ آپ لوگ چھپ رہو اور ردعمل کے فیصلے عوام پر چھوڑیں، وہ مزید کہتا ہے ظلم کے انتہا میں کچھ گرم طبعیت کے لوگ قدرتی طور پر خود اُٹھتے ہیں جن سے ظلم برداشت نہیں ہو سکتا اور وہ ان مظالم کے خاتمے کے لئے اپنے عوام کو تیار کرتے اور یہی لوگ تاریخ رقم کرکے عظیم حیثیت قائم کرتے ہیں جو کروڑوں لوگوں کے آئیڈیل بن جاتے ہیں۔

اسی طرح بلوچستان میں مظالم خاص کر پروفیسر رزاق زہری کی شہادت پر تکلیف اور اس کے بعد شدید احساس، ڈاکٹر صبیحہ کو ایک عام انسان سے عظیم انسان بنانے کے بنیادی عوامل ہیں اور تاریخ میں ہر عظیم انسان کے پیچھے ضرور کوئی نہ کوئی خاص عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔

وہ سوچ بچار کے بعد باقاعدہ طلبا سیاسی ادارہ بساک کا حصہ بن جاتی ہے تاکہ اُس پلیٹ فارم سے اپنے استاد کے شہادت سمیت تمام مظالم پر آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنے قوم اور خاص کر نوجوان طبقے کو تسلسلِ ظلم کے داستان سے واقف کرنے کے بعد اس کے خاتمے کیلئے اقدامات کیا جائے۔

بانک ڈاکٹر صبیحہ کا تعلق بنیادی طور پر بلوچستان کی اس مردم خیز سرزمین زہری،جھالاوان سے ہے جس کی ہر پتھر کے اوپر ان عظیم ہستیوں کے پاؤں کے نشانات ہیں جنہوں نے سقراط کی طرح دشمن کے سامنے سرینڈر کرنے کی بجائے موت اور شہادت کو ترجیح دے کر سارے نوجوانوں کے لئے مزاحمت، بہادری اور اجتماعی شعور کے اسباق چھوڑے۔ یہ سرزمین ہمیشہ بلوچیت کا مرکز اور اجتماعی شعور کا محور رہا ہے، جنہوں نے ہر لمحہ اپنے سرزمین اور بلوچ اقدار کی دفاع کی ہے، مارٹن اگزمن کے مطابق، یہاں کے باسیوں کے ہاں انگریز، بلوچ سرزمین پر حملہ آور کے ساتھ سمجھوتہ کی نفرت اس واقع سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہی قبیلہ کے سربراہ رحیم خان مینگل، بہرام خان گرگناڑی اور دوسرے قبائلی سربراہوں کا قتل ایک ہی وقت میں اس بنیاد پر کیا کہ انہوں نے انہیں جنگ عظیم اول کے دوران انگریز کے ایما پر انگریز فوج میں بھرتی کے لئے راضی کرنے کی کوشش کی کہ وہ بھرتی ہو کر انگریز مخالف قوتوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیں۔

ڈاکڑ کی نظریں جب بچپن میں زہری کے بلند پہاڑوں کو پڑتی تو اسے شہید بابو نوروز خان زرکزئی کی نظریہ اپنانے کا خیال ضرور آیا ہوگا جس نے ضعیف عمری ہونے کے باوجود خاموشی اور گھر میں بستر پر آرام کرنے کی بجائے ان سنگلاخ چٹانوں اور پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا کر نوجوانوں کے لئے ہمت اور حوصلے کی ورثہ پیچھے چھوڑا۔ بابو نوروز کی پیران سالی میں مزاحمت کا فیصلہ ڈاکٹر صبیحہ سمیت ہر بلوچ کے شعوری سمت کی تعین میں ایک بہترین لیڑیچر ہے اور اس سے نواب خیربخش مری اور شہید نواب اکبر بگٹی متاثر ہوتا ہوا نظر آتے تھے۔

شہید کریمہ بانک، سابقہ چیئر پرسن بی ایس او آزاد، کے بعد ڈاکٹر صبیحہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ انقلابی طلبا تنظیم بساک کی سربراہ رہ چکی ہے۔

طلبا سیاست سے فراغت کے بعد بانک صبیحہ سیاسی میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے تربت میں برمش کی شہادت کے بعد بی وائی سی کی بنیاد رکھنے میں مرکزی کردار میں سے ایک ہے۔ اسی طرح پروفیسر رزاق کے شہادت کے بعد برمش کی شہادت نے بانک کی مزاحمتی سوچ اور جدوجہد کو مزید تقویت دے کر اب اسے ایک عام ڈاکٹر سے ایک سیاسی لیڈر کی پہچان دی ہے۔ اب وہ کسی پرائیویٹ کلینک، مریضوں سے ہزار ہزار روپے فیس لینے یا کسی انٹرنیشنل ہیلتھ آرگنائزیشن کے بھاری تنخواہوں کے لالچ کے بجائے بلوچستان کے ہر گلی اور محلے میں بلوچ کو سیاسی شعور دے رہی ہے کہ پروفیسر رزاق زہری اور ہزاروں بلوچ کو کیوں ہم سے جدا کیا گیا ہے اور بلوچ کی مزید نسل کشی کے تدارک کیسے کیا جائے۔ اس لیئے، اسرار شوھاز اپنے ایک شعر میں کہتا ہے کہ بانک

راسکوہ کے پہاڑوں میں گونجی ہے للکار
صبیحہ کے قدموں سے لرزاں ہے سرکار
مظلوم کی آواز، وہ محکوم کی غم خوار
چلتن کی ماہتاب ہے وہ، گوادر کا اعتبار

بانک گو کہ جسمانی حوالے سے کمزور لگتی ہے مگر اسں کی مضبوط سوچ اور شعور نے اس کی کندھوں میں اتنی طاقت پیدا کی ہے کہ اس نے جھالاوان کی مزاحمتی ورثہ کو اٹھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے دیکھائی دے رہی ہے جس کی بنیاد میر خان محمد زہری، سردار گوہر خان زرکزئی، میر نورالدین مینگل، سردار شہباز خان گرگناڑی اور نورامنگل نے رکھ لی ہے۔

یہ وزن جو بانک نے اپنے کندھوں پر اٹھانے کی فیصلہ کی ہے اس کی بوجھ کا اندازہ ہم یہاں سے لگاتے ہیں کہ ان کو برداشت کرنے کے لئے بہت کم سیاست دان ملتے ہیں، سلیگ اہیری سن کے مطابق ،” جب 70 کے دہائی میں سردار عطاء اللہ خان مینگل سے نوجوانوں کے ایک گروپ ملاقات کر کے اسے مزاحمتی تحریک کے ذمہ داری اور حصہ داری کا کہتے ہیں، تو سردار صاحب صاف انکار کرتا ہے کہ مجھ میں اتنی سکت نہیں کہ اس سربراہی کی بوجھ اٹھا سکوں جس کے بھیانک انجام ہوتے ہیں، خون کی ندیاں بہانے پڑتے ہیں اور اس کے مشورے بھی، میں آپ نوجوانوں کو نہیں دیتا اور ہاں میں صرف ایک عام پیروکار ضرور ہو سکتا ہوں” ۔ اسی وزن کی بوجھ کو ہم مزید جانچنے کے لئے دیکھ سکتے، سردار اختر جان مینگل کہتا ہے، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی ساتھ قوم نے ہمراہ داری کا فیصلہ کیا ہے اور میں ان کے صرف ایک کارکن بننے کے لئے تیار ہوں مگر سردار صاحب اس سوچ کی سربراہی کی وزن اٹھانے کی شاہد سکت نہیں رکھتے جس کی بانی سردار شہباز خان گرگناڑی رہ چکا ہے اور اس سوچ کے لئے صرف اپنے خدمات کو ایک عام پیروکار کے حد تک پیش کرتا ہے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سردار صاحب کو سربراہی کی قابلیت یا گُر نہیں ہے مگر اس سربراہی کو اپنے کندھوں میں اٹھانا موت کے ساتھ کھیلنے کی مترادف ہوتی ہے۔جس کے بھیانک انجام سے نواب مری، بابو نوروز، زاکر مجید، غلام محمد اور زاہد بلوچ گزر چکے ہیں۔

بانک صبیحہ کی تقریر بہت دھیمی آواز میں ہوتی ہیں مگر جن خیالات کو وہ اپنے تقریر میں اظہار کرتے ہیں وہ اتنے بھاری ہوتے ہیں کہ ان کو اٹھانے کی سکت بلند و بالا راسکوہ اور کوہ چلتن کو بمشکل ہو، اس کی ہر بیان میں قوم کے لئے ایک خوبصورت پیغام اور فلسفہ پنہاں ہوتا ہے جو نواب خیر بخش مری کی گفتگو انداز اور خیالات کی عین عکاسی کرتی ہے۔

جب بانک کے خیالات سامنے امڈ آتی ہیں، تو اس میں ایک ہی وقت میں دشمن کے آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے ساتھ ساتھ اپنے قوم، خاص کر بلوچ عورت کے لئے بھی اہم پیغام ظاہر ہوتا ہے، وہ بلوچ عورت کو قومی تحریک میں کثرت سے عملی شمولیت پر اس طرح درس دے رہی ہے جیسے فرانز فینن الجزائر کے مقامی باشندوں کے عورت کو فرانسیسی کالونائزر کے خلاف میدان میں آنے کی دعوت دے رہا ہو جیسا کہ کردستان تحریک کی بانی عبداللہ اوقلان کرد عورت کو ترکی، شام اور ایرانی مظالم کے خلاف اپنے مردوں کے برابر حصہ داری اور زمہ داری پر مائل کرتا رہتا تھا۔

ڈاکڑ صبیحہ کے خیالات ان بلوچ عورتوں کی مفلوج ذہنیت کے لئے بھی سوالیہ نشان بن چکی ہے جو نام نہاد فیمیینزم اور لبرل ازم کی تحریک سے متاثر ہو کر بلوچ عورت کو مغرب زدہ کرنے کی لاحاصل یا ناکام کوشش کر رہے ہیں، جو بلوچ عورت کو فردی آزادی کے نام پر ان کے بلوچی اقدار اور غیرت سے محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، جو بلوچ عورت کو تاریخ کے عمل اور کردار کے مراحل سے نکال کر اسے ایک بے مقصد سمت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر اس وقت ہر بلوچ عورت کو احساس دلا رہی ہے کہ وہ مغرب کی سماج کو اپنانے کی بجائے اپنے اندر شہید بی بی بیبو احمدزئی، شہید بانک کریمہ اور بانڑی رند کی کردار اپنائیں جنہوں نے بلوچ بہادر بھائیوں کی موجودگی کے باوجود اپنے قومی تحریک اور سماج کی سربراہی کی ہے، جنہوں نے بلوچ سماج میں Gender Discrimination کی پہلے سے خاتمہ کی ہے، اور ہر محاز میں مرکزی کردار کے ساتھ تاریخ رقم کر چکے ہیں۔

(ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نا پِنَٹ)
ننا غم تا ہمے مَونِنگا بَیرَک
نا دُوٹی بَس تو خِیسُن مَس– صبیحہ!
کنے یاتے کہ نی پاریسہ انتَس
کنے فَخرے کہ اَندُن مَس — صبیحہ!
دَسینُس نی اَرا راجی ءَ بِج ۓ
ننا خُشکاوہ خَرُّن مَس —– صبیحہ!
نا فکر و فلسفہ نا بِسُّنی آن
دا یَخ ام ننکہ باسُن مَس — صبیحہ!
نا رَندئٹ بَس مَس ہمگام نیتو
دا چُنکا اُست بَھلُّن مَس — صبیحہ!
باری آجو

آج ڈاکٹر صبیحہ کی سوچ اور مزاحمتی کردار اس سطح پر پہنچ چکی ہے جس پر پوری بلوچ قوم کے ساتھ ساتھ اس کے شہید استاد رزاق زہری کی روح کو فخر کرنے کے ساتھ ساتھ سکون ملتی ہوگی کہ واقعی اس نے اپنی زندگی میں ایک عظیم کام سر انجام دے کر ڈاکڑ صبیحہ کو چند الفاظ سکھادیئے۔ اور اس وقت میر یوسف زرکزئی بھی اس کی قومی عمل اور کردار پر نازاں ہوگا جس نے علی گڑھ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی انگریز کے مراعات اور لالچ کو ٹکڑا کر جھالاوان کے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا کر انگریزوں کے خلاف نبرد آزما ہوئے اور آج اس کی فیصلہ کو ڈاکٹر صبیحہ درست ثابت کرتے ہوئے اس کو دہرانے کے لئے خود میڈیکل کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی سرکار کے مراعات ،لالچ اور اپنی ذاتی زندگی کے بجائے بلوچستان کے کونے کونے میں جا رہی ہے اور ان کو میر یوسف خان اور شہید بابو نورز خان زرکزئی کی مزاحمت کے داستان سنا کر قومی غیرت اور اقدار پر مر مٹنے کا فلسفہ اور پیغام پہنچا رہی ہے۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *