ڈائسپورا بلوچ کمیونیٹی کی آواز بننے والا “گدان ٹی وی” ایک منفرد آن لائن پلیٹ فارم ہے جو امریکی سوشل میڈیا پر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس چینل کے بانی، میزبان اور ایگزیکٹو پروڈیوسر شمس الدین شمس ہیں، جو نہ صرف ایک سرگرم میڈیا شخصیت ہیں بلکہ ایک حساس اور فکر انگیز بلوچی شاعر بھی ہیں۔
“گدان ٹی وی” کا مقصد صرف خبر رسانی نہیں بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے جہاں مشرقی و مغربی بلوچستان، کراچی، کوہِ سلیمان اور دنیا بھر میں موجود بلوچ قوم کے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کو اجاگر کیا جا سکے۔ سنہ 2019 سے اب تک شمس الدین شمس نے درجنوں ایسے پروگرامز اور وی لاگز نشر کیے ہیں جن میں بلوچ عوام کی حالتِ زار، جبری گمشدگیاں، ریاستی جبر، وسائل کی لوٹ مار، تعلیم، روزگار، شناخت، اور تارکین وطن کے مسائل پر کھل کر بات کی گئی ہے۔
حالیہ دنوں “گدان ٹی وی” کے زیرِ اہتمام امریکہ میں ایک اہم سماجی تقریب منعقد کی گئی، جس میں امریکہ کے مختلف شہروں، بوسٹن سے لے کر ورجینیا تک، میں مقیم بلوچ افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ یہ تقریب نیوجرسی میں ایک معروف مقام “بلوچستان ریسٹورنٹ” میں منعقد ہوئی، جس نے امریکہ میں مقیم بلوچوں کو آپس میں مل بیٹھنے اور جڑنے کا موقع فراہم کیا۔
تقریب کی میزبانی کے فرائض خود شمس الدین شمس نے سنبھالے، جنہوں نے نہایت عمدگی سے اسٹیج سیکریٹری کی ذمہ داری نبھائی اور حاضرین کو جوش و جذبے کے ساتھ جوڑے رکھا۔ اس موقع پر مقررین میں بلوچستان اسمبلی کے سابق اسپیکر ، بلوچ سیاستدان وحید بلوچ، محمد اکرم بلوچ، نبی بخش بلوچ ،سمی بلوچ، شلی بلوچ، سعید بلوچ ، رحمت بلوچ اور محمد علی شامل تھے، جنہوں نے امریکہ میں بلوچوں کے اجتماعی وجود، شناخت کے تحفظ اور باہمی ربط کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
مقررین نے تقریب کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: “ایسے پروگرامز ڈائسپورا بلوچ کمیونیٹی کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں، اور ہمارے درمیان سماجی ہم آہنگی، رشتے اور شعور کو فروغ دیتے ہیں۔”
یہ تقریب کسی سیاسی یا احتجاجی نوعیت کی نہیں تھی بلکہ ایک سماجی گیدرنگ تھی، جس کا مقصد امریکہ میں موجود بلوچوں کو ایک دوسرے کے ساتھ متعارف کرانا اور ایک پرامن ماحول میں ثقافتی و فکری تبادلہ ممکن بنانا تھا۔
“گدان ٹی وی” کی یہ سرگرمی نہ صرف امریکہ میں بلوچ کمیونیٹی کے اندر ربط و تعلق کو مضبوط بنانے کی کوشش تھی، بلکہ اس نے عالمی سطح پر بلوچ قوم کے متحرک اور بیدار چہرے کو بھی اجاگر کیا۔ ایسے پروگرامز کی مستقل بنیادوں پر تنظیم نہ صرف ثقافتی ورثے کو زندہ رکھ سکتی ہے بلکہ نوجوان نسل کو اپنی زبان، شناخت اور تاریخ سے جوڑے رکھنے میں بھی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔
Add comment