انسانی سماج آرٹ کے بغیر نامکمل ہے، اور آرٹ عورت کے بغیر ادھورا ہے کیونکہ کہ اعظیم فن تخلیق کرنے کے لیے حساسیت چاہیے اور عورت حساسیت کی سرچشمہ ہے۔
عورت بنیادی فنکار ہے۔ وہ فطری طور پر ایسی تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہیں جو ایک فنکار ہونے کے لیے ضروری ہیں۔ خواتین نے اپنے خیالات، جذبات، نظریات اور تخیلات کے اظہار کے لیے مختلف طریقوں سے مختلف کوششیں کی ہیں اور کر رہی ہیں۔
تاہم پدرانہ معاشروں میں عورت کی جذبات کی اظہار کو گناہ کبیرہ سمجھا جاتا تھا کیونکہ مرد ہمیشہ شاعری، ادب، علم اور فن میں اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتے تھے، جب کہ خواتین کو ان کے تابع فرمان رہنا تھا۔ خواتین کو غلامی کی حالت میں رکھنے کے لیے پدرانہ نظام نے انہیں باریک بینی سے دبانے کے لیے مختلف نفسیاتی حربے استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اور اس شازش میں کافی حد تک وہ خواتین کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئیں کہ وہ مردوں کے مقابلے فن اور ادب میں کم تخلیقی ہیں کیونکہ ان میں ذہنی صلاحیتوں کی کمی ہے جو مردوں کے پاس ہے۔ تاہم حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
سماجی ارتقاء کے ساتھ، خواتین میں بااختیاریت اور خود عتمادیت کا احساس پیدا ہوا ہے کہ آرٹ تخلیق کرنا صرف مردوں کی وراثت نہیں ہے بلکہ یہ ایک فطری عمل ہے جو جنس اور جسم سے آزاد ہے۔ پدرانہ نظام نے خواتین کو محکوم بنانے اور اسکو آسانی سے قابو کرنے کے لیے یہ تمام حربے استعمال کیے ہیں۔
تب سے لے کر آج تک خواتین نہ صرف شاعری، موسیقی، رقص، گانے، ناول نگاری، نثر، پینٹنگز اور پورٹریٹ تخلیق کر رہی ہیں بلکہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے خواتین کی سماجی، اخلاقی اور نسوانی بہتری کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔
جدید دنیا میں، حقوق نسواں کے فنکار اپنے پینٹنگز اور ڈرائنگ کے ذریعے پدرانہ معاشرے کی زنجیریں توڑنے اور نسوانی آزادی حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہے ہیں جہاں خواتین آزادی سے سانس لے سکیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خواتین حضرات آرٹ کے ذریعے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں، اپنے فن کے ذریعے مردانہ ذہنیت اور اس کے جنسی تعصبات کو چیلنج کر رہی ہیں، مردوں کو ان کی تنگ نظر خیالات کے منفی اثرات سے آگاہ کر رہی ہیں، اور انہیں یہ قائل کرا رہی ہیں کہ عورتیں وہ “شے” نہیں ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام نے آپکو دکھایا ہے، بلکہ وہ بھی انسان ہیں انکی بھی انسانی احساسات، خواہشات اور تکلیفات ہیں۔
حقوق نسواں کے آرٹسٹس، خواتین کی سیاسی مساوات، سماجی انصاف اور انکے معاشی حقوق کے لیے اپنے فن اور ادب کا بہترین انداز میں استعمال کررہے ہیں۔ ان بہادر اور نڈر تخلیق کاروں کو پدرانہ سوچ رکھنے والے مردوں کی آراء کی کوئی پرواہ نہیں ہے، کیونکہ وہ پدرانہ نظام کو چیلنج کرنے کے لیے استقامت اور بردباری کے ساتھ اپنے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حقوق نسواں آرٹسٹس کی بنیادی کوشش اور کاوش ایک دبے ہوئے اور پدرانہ معاشرے میں رہنے والی خواتین کی جسمانی مشکلات، جذباتی اضطراب اور نفسیاتی مسائل کو آشکار کرنا ہے جن کی وجہ سے خواتین تکلیف میں ہیں۔ وہ اپنے فن کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ خواتین کس طرح خاموشی سے ظلم سہہ رہی ہیں۔
خواتین نے اپنی علم اور فن سے یہ ثابت کررہی ہیں کہ فن کا تعلق کوئی رنگ، نسل، قوم، زبان یا جنس سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق انسانی فطری جذبات اور تصورات سے ہے۔ عورت ذات ذہنی، جذباتی اور فکری طور پر جتنا زیادہ آزاد ہوگی تو وہ اتنا زیادہ اپنے معاشرے، قوم اور انسانیت کے لیے بہترین فن تخلیق کر سکتی ہے۔
Add comment