گلبرٹ ایک وسیع راستہ طے کرتے ہو ئے ٹرین کے پاس پہنچا۔۔ساتھ دو تین اور سواری بھی چڑھے اور ایک ساتھ بیٹھ گئے۔

گلبرٹ آنکھوں پر چشمہ لگاکرکوئی کتاب کو کھول کر بیٹھ گیا۔
ساتھ بیٹھے مسافر اپنی باتوں میں مگن تھے۔

ٹرین نے کچ مسافت طے کی کہ ایک ہجوم نے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ۔۔
سینکڑوں لوگ ہاتھوں میں پوسٹر لیے نعرے لگا رہے تھے جس میں ریلیز انیس لکھا تھا۔۔
گلبرٹ سے ایک مسافر مخاطب ہوا : تم کیا سمجھتے ہو انیس کو رہا کر دیا جا ئے ۔۔؟

گلبرٹ کا جواب سنے بغیر اس نے جاری رکھا۔۔۔
آج سے پانچ سال پہلے یونیورسٹی کے قریب کیفے میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا کچھ لوگ آئے اور میرے ایک دوست کے متعلق کہا کہ اس سے دور رہناپھر وہ واپس چلے گئے۔

مجھے لگا یونیورسٹی میں کسی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے بول دیا ہوگا۔۔۔ہفتے گزر گیا ،وہ بات میرے ذہن سے بھی نکل چکا تھا۔۔

ایک شام میں ہوٹل میں کام کر رہا تھا جو میں اپنی تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلئے مذکورہ ہوٹل میں پارٹ ٹائم کرتا ہوں۔۔۔۔

اچانک کچھ گاڑیاں آئیں اور کسی نے میرے طرف اشارہ کیا۔۔۔
مجھے سوچنے کا موقع تک نہیں ملا اور وہ لوگ مجھے چند لمحوں میں پکڑ کرنقاب پہنا کر گاڑی میں بٹھا کر لے جانے لگے۔۔

خوف ڈر تو تھا ہی میں نے پھر بھی سوال کیا کہ آپ کون ہیں مجھے کہاں لے کہ جارہے ہو؟؟۔۔۔

مجھے غصے سے چپ کرا دیا گیا۔۔۔
مجھے اندازہ نہیں تھا کہ گاڑی میں میرے ساتھ میرا وہ ساتھی بھی تھا جسکی دھمکی مجھے دی گئی تھی کہ اس سے دور رہنا ۔۔۔
ہم چار لوگوں کو مختلف مقامات سے اٹھایا گیا تھا۔۔۔

گاڑی میں مکمل خاموشی تھی۔۔۔
گاڑی جا کر کسی زیر زمین جیسی جگہ پہ رکی۔۔۔
میں نے کہا کہ میری سانس رک رہی ہے ،تب انھوں نے نقاب اتارے لیکن سختی سے تاکید کی کہ کوئی نظر نہ اٹھائے ۔
اسی دوران مجھے میرے باقی تین دوست نظر آئے۔جنکی نظریں نیچھی تھیں اور بندوق کے کنداخ سے انکے سر پہ مسلسل وار ہو رہا تھا۔۔۔

مجھے ایک کمرے میں لے کر گئے لیکن باقی تینوں کو اندھیرےمیں ایک جگہ لے جایا جانے لگا جو سمجھنے میں مشکل تھی کہ کوئی غار ہے یا کوئی جیل۔۔

بدبو کی شدت بہت زیادہ تھی۔ اگر تھوڑی دیر اور سانس لیتا تو میرا دم وہی گھٹ جاتا۔۔

میں کمرے میں خوف اور ڈر کی حالت میں تھا،موت کے ڈر کی وجہ سے دماغ مائوف ہوگیا تھا آواز ساتھ نہیں دے رہی تھی۔۔۔
کمراہ انتہائی سیاہ تھی ،جہاں کوئی بچھونا نہیں تھا نہ ہی کوئی کھڑکی تھی۔۔۔

بہت اوپر ایک چھوٹا سے روشندان تھا جس سے بمشکل ہلکی روشنی دکھائی دے رہی تھی۔۔۔

آفیسر نامی کوئی صاحب کو اندر لایا گیا اور مجھے کہنے لگے کہ منع کرنے کے باوجود تم باز نہ آئے ؟۔۔۔۔ میں نے پوچھا میرا قصور کیا ہے؟؟؟

جواب میں زوردار تھپڑ میرے گال پرثبت ہوگیا۔۔۔
اور اس دوست کے متعلق عجیب و غریب سوال کرنے لگے جنکے متعلق میں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔۔۔

دو دن شدید مارنے کے بعد مجھے سخت ترین ذہنی اذیت سے دوچار کیا گیا۔ دھمکی آمیز لہجے میں دور رہنے کی پھر تنبیہ کی گئی۔۔۔
دو دن بعد مجھے ایک سوکھی روٹی دیدی گئی جو پانی کے بجائے نمک میں گوندھا ہوا لگا۔۔میں چونکہ بلڈ پریشر کا مریض تھا ،روٹی کا ایک نوالہ میرے لیے زہر کا نوالہ تھا۔۔۔

تیسرے دن مجھے رہا کر دیا گیا۔۔۔

تین ماہ تک میں نے اپنے دوستوں کے متعلق کسی سے کوئی بات نہیں کی۔۔۔مجھے لگا کہ میری طرح ان کو بھی منع کیا گیا ہوگا۔۔۔۔
تین ماہ بعد مجھے خبر ملا کہ البرٹ کی موت ہوگئی ہے۔۔۔۔جسکی آنکھیں پھوڑ دی گئی تھیں، چہرہ ظاہر نہیں تھا، ڈرل مشین سے جسم کے بہت سے حصوں کو خالی کر دیا گیا تھا۔۔۔
ہاتھوں پیروں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔۔۔

بتایا گیا کہ موت کی وجہ بغاوت کرنا تھی۔۔۔۔
پولیس مقابلے میں مار دیا گیا جو تین ماہ سے انکی حراست میں تھا جسکا میں چشم دید گواہ بھی ہوں۔۔۔
میں اپنے دوست کیلے کچھ نہ کر سکا۔۔۔
اگر انیس کی فیملی کی طرح آواز اٹھاتا تو شاید وہ بھی زندہ ہوتا۔۔۔

میرے حساب سے آواز نہ اٹھانے والے کا وجود بے معنی ہے۔۔۔۔
گلبرٹ ابھی سوال کرنے لگا تھا کہ نام کیا تھا اس کا جس کو اتنے بے رحمی سے قتل کیا گیا۔۔۔۔

اچانک گھنٹی بہت تیز بجی گلبرٹ کی آنکھ کھل گئ۔۔۔
گلبرٹ کا اسٹیشن آ چکا تھا۔۔وہ ٹرین سے نیچے اتر گیا۔۔

٭٭٭

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *