بلوچستان کی مٹی صدیوں سے دکھ سہتی آئی ہے۔ یہ زمین اپنے پہاڑوں کی بلند قامت اور اپنے سمندر کی بے کراں گہرائیوں کے باوجود مظلوموں کے لہو سے سرخ ہے۔ میں، حسیبہ قمبرانی، اسی مٹی کی بیٹی ہوں اور میرا دکھ کسی ایک فرد یا خاندان کی کہانی نہیں، یہ بلوچستان کے ہر گھر کی کہانی ہے۔

میری زندگی 2015 کی ایک سرد رات میں بدل گئی، جب میرے بھائی سلمان اور کزن گزین کو ہمارے سامنے سے چھین لیا گیا۔ میرے گھر کے دروازے کو یوں توڑا گیا جیسے ہمارے خواب، امیدیں، اور زندگی کی آخری ہنسی کو توڑا جا رہا ہو۔ ہم نے دروازے کھٹکھٹائے، لیکن ہمیں صرف خاموشی ملی۔ احتجاج کرنے کی جرات کی، تو ریاستی اداروں نے دھمکی دی: “اگر تم نے بولنے کی کوشش کی، تو ان کی زندگی جہنم بنا دی جائے گی۔”

اور پھر، ڈیڑھ سال کے بعد، ان کے جسم مسخ شدہ حالت میں ہمارے قدموں میں پھینک دیے گئے۔ میرے بھائی اور کزن کی لاشیں اس مٹی کی بے بسی کی گواہی دے رہی تھیں، جو اب بھی انصاف کے لیے تڑپ رہی ہے۔ میں نے اس وقت اپنے دل سے وعدہ کیا کہ میں ان کی قربانی کو کبھی فراموش نہیں کروں گی، لیکن میں مجبور تھی، میں خاموش تھی۔

یہ خاموشی 2020 میں دوبارہ توڑ دی گئی، جب میرے دوسرے بھائی حسان اور کزن حزب اللہ کو لے جایا گیا۔ میں ایک ایسی لڑکی تھی جو کبھی گھر سے باہر نہیں نکلی تھی، لیکن اس دفعہ دکھ اتنا شدید تھا کہ میں نے اپنے خوف کو پیچھے چھوڑا۔ میں گھر سے نکلی اور اپنے بھائیوں کی فریاد لے کر دنیا کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ 17 ماہ تک میں نے اپنی کہانی سڑکوں، سوشل میڈیا، اور عدالتوں میں سنائی۔ دنیا نے میری آواز سنی، لیکن وہ وقت میرے وجود کو چیرتا گیا۔ میرے بھائی واپس آئے، مگر وہ جو میں نے کھو دیا تھا، وہ کبھی واپس نہ آیا۔

میں نے اپنی زندگی کو معمول پر لانے کی کوشش کی، لیکن بلوچستان میں درد کبھی ختم نہیں ہوتا۔ آج، 2025 میں، میرے بھائی جواد اور کزن حزب اللہ کو پھر سے غائب کر دیا گیا ہے۔ یہ زخم اب پرانے نہیں لگتے، یہ آج بھی اتنے ہی گہرے اور تروتازہ ہیں جیسے پہلی بار لگے تھے۔

بلوچستان میں، ہر گلی ایک قبرستان ہے، ہر گھر ایک ماتم کدہ۔ یہاں ماں کی آنکھوں میں آنسو خشک ہو چکے ہیں، لیکن دل کا درد کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ایک بہن اپنے بھائی کی تصویر کو سینے سے لگا کر اسے واپس پکارتی ہے۔ ایک بچہ اپنے والد کے جوتے دروازے کے پاس رکھتا ہے، امید کرتا ہے کہ وہ واپس آئیں گے۔

میرا سوال صرف اتنا ہے:

کیا بلوچستان کے لوگ انسان نہیں؟

کیا ہماری مائیں اپنے بیٹوں کو زندہ رکھنے کا حق نہیں رکھتیں؟

کیا ہماری بہنیں صرف یہ حق مانگ رہی ہیں کہ ان کے بھائی ان کے ساتھ ہوں؟

دنیا، کیا تم نہیں دیکھ رہی؟
یہ مٹی انصاف کے لیے تڑپ رہی ہے۔ یہ مٹی اپنے لوگوں کی چیخوں سے لرز رہی ہے۔ اگر ہم آج خاموش رہیں گے، تو آنے والی نسلیں بھی اسی جبر کا شکار ہوں گی۔

میں آپ سب سے درخواست کرتی ہوں کہ میری آواز سنیں۔ میری کہانی کو اپنی کہانی بنائیں۔ بلوچستان کے درد کو دنیا کے ہر کونے میں پھیلائیں۔ کیونکہ اگر آج آپ خاموش رہیں گے، تو یہ اندھیرا صرف بلوچستان نہیں، بلکہ پوری انسانیت کو نگل لے گا۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *