گو کہ انگریز نے 1876 میں بلوچستان کی خودمختاری کو مکمل طور پر سلب کر لیا ،جس میں کچھ سرداروں کے منفی کردار اور غداری کو تاریخ میں ہر وقت یاد کیا جاتا ہے جس کی تفصیل میر امیر محمد ،میر محراب خان اور میر خداہداد خان کے دور حکومت میں ملتی ہے ۔

مگر تاریخ کے بطن میں صادق اور جعفر کے منفی کردار کا ہر گز مقصد یہ نہیں ہوتا کہ پوری قوم اپنے سربراہوں کے ساتھ مل کر سودا بازی کرے یا خوف میں مبتلا رہے۔ ایسے ہی بلوچ قوم میں زمین اور قوم فروش سرداروں کے مدمقابل میں سرفروش،باہمت،زمین اور قوم سے محبت کرنے والے سرداروں کی بھی کمی نہیں رہی ہے جنہوں نے آخری سانس تک بلوچ سرزمین ،غیرت ،رسم اور رواج کی حفاظت کے لئے میدان میں دشمن کے خلاف برسر پیکار رہ کر جان اور مال کی قربانی دی ہیں جن میں سردار گوہر خان زرکزی زہری کا نام بھی تاریخ کے صفحات میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔

انگریز نے جب بلوچستان کے اندرونی معاملات میں مکمل دست رس حاصل کی تو بلوچ سرداروں کا غصہ ٹھنڈا کرنے، اور ان کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے ان کے بچوں کو تعلیم دینے کی حکمت عملی بنائی تاکہ وہ قابض کی مشینری کے لئے فائد ہ مند بھی رہیں ۔اس بابت انہوں نے سردار گوہر خان زرکزی زہری کے بیٹے میر یوسف خان زرکزی زہری کو علی گڑھ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے روانہ کیا۔

مگر سردار گوہر خان زرکزی (1893-1895) انگریز کے قبضہ گیریت کے خلاف میدان میں سرگرم رہ کر انہیں طرح طرح کے نقصانات پہنچائے ۔ انگریز نے اسے کاؤنٹر کرنے لئے اس کے بیٹے یوسف خان زرکزی (1894) کو علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد بلایا اور اسے یہ پیش کش کیا کہ اسے اس کے والد کی جگہ سردار بنانے کے ساتھ ساتھ اچھی تنخواہیں اور دوسرے مراعات سے نوازہ جائے گا جس کے بدلے میں وہ اپنے والد کے انگریز مخالف جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کے لئے کردار ادا کریں ۔

میر یوسف خان زرکزی، بہادر اور قوم دوست باپ کا بیٹا تھا ، جس نے انگریز کے تمام لالچ اور عہدوں کو ٹھکرا کر اپنے والد کے ساتھ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں انگریز قبضہ کے خلاف مورچہ زن ہوا ۔

جب انگریز نے یوسف خان کے مزاحمتی کردار کو دیکھا تو انہوں نے بہت افسوس اور پشیمانی جتائی کہ سردار کے بیٹے کو کیوں علی گڑھ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم دلوایا جو آخر کار اپنے باپ اور دادا کے نقش قدم پر چلا گیا،جو بیرونی آقا کے حاکمیت کے خلاف جنگ کرتے رہتے تھے اور قابض کے قبضے کو اپنے قوم کے لئے باعث شرم سمجھتے تھے ۔

یوسف خان کے باغیانہ کردار کے بعد انگریز نے اپنے پالیسی ساز اداروں میں یہ فیصلہ کیا کہ بلوچ کے بچوں کو تعلیم سے دور رکھنا ہے کیونکہ وہ تعلیم دلوانے کے بعد بھی ان کے ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔

اسی طرح ،انگریز ہندوستان میں “تعلیم سب کے لئے” کے پروجیکٹ پر کام کاابتداء کر کے ہندوستان میں تعلیم پھیلانے کے لئے کام شروع کرتا ہے اور چونکہ بلوچستان کے سرزمین بھی انگریز کی پالیسی کا حصہ تھا تو اس نے بلوچستان میں موجود اپنے مرکزی ذمہ داروں کو اس بارے میں آگاہ کیا۔

انگریز بلوچ قوم کے تعلیم کے حوالے سے پہلے فیصلہ کر چکا تھا کہ اس قوم کو ہمیشہ کے لئے illiterate رکھنا ہے مگر وہ اس گناہ کبیرہ کے قصور وار بھی مقبوضہ کے لوگوں کے اوپر ڈالنا چا رہا تھا تاکہ وہ انہیں ہر وقت ان کے اپنے لوگوں کے نظروں میں نیچا دکھا سکے جو کالونایزڈ کے بہت سے طریقہ کار میں سے ایک ہے۔

اس تناظر میں انگریز نے 1899 میں بلوچستان کے سرکردہ سرداروں کو کوئٹہ میں ایک جرگہ کے ذریعے بلایا اور انہیں مرکزی حکومت کے پالیسی “تعلیم عام” کے بابت آگاہ کیا،اور ان کے رائے لے کر مرکزی حکومت کو ارسال کرنا تھا۔مگر افسوس کی بات یہ تھی کہ ان کے رائے لینے سے پہلے ان کو برین واش کرنے لگا کہ تعلیم آپ لوگوں کے لئے نقصان دہ ہے، کیونکہ بعد میں بچے آپ لوگوں کے فرمان اور احکامات پر کار بند نہیں رہیں گے اور نہ ہی زمین دار اور مال داری سے وابستہ رہیں گے۔

دوسری طرف تعلیم سے انہیں حکومت ،سیاست اور دوسرے خیالات سے واقفیت ملے گا جو آپ سرداروں کے کسی بھی کام کے لئے کار امد نہیں ہوں گے۔اس طرح جرگہ میں موجود سرداروں کی اکثریت انگریز کے ٹریپ میں آگئے اور انہوں نے “تعلیم سب کے لئے ” کے پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالا اور ان کے رائے کوہندوستان میں مرکزی حکومت کو بھیج دیا گیا اور بلوچستان کے باسیوں کو قابض نے اپنے سازش کے تحت ہمیشہ کے لئے تعلیم سے دور رکھا، جس کے منفی اثرات پورے قوم کو جھیلنا پڑا ۔اور انگریز کے بلوچ تعلیم دشمن پالیسی کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جب میر احمد یار خان (آخری خان آف قلات) نے ریاست قلات کا تخت سنبھالا تو پورے بلوچستان میں صرف ایک مڈل سکول تھا جو مستونگ شہر میں واقع تھا ،اس کے علاوہ پوری بلوچستان میں چند پرائمری سکول کے علاوہ کوئی جدید درسگاہیں نہیں تھیں ۔اس کے برعکس انگریز ہندوستان کے باقی علاقوں میں جدید تعلیمی ادارے دے رہے تھے ۔

جس انگریز نے بلوچ کو اپنے سازش کے تحت تعلیم سے محروم رکھا پھر بعد میں انہیں ہر جگہ موردالزام ٹھہراتا کہ جی سردار خود نہیں چاہتے کہ ان کے بچے جدید تعلیم سے مستفید رہیں۔

گورے کے جانے کے بعد کالے نے بھی وہی گورے کی پرانی پالیسی کو برقرار رکھا کیونکہ پاکستان کے بننے کے بعد بھی کئی سرکردہ رہنماؤں نے بلوچ ریاست کے الحاق کے خلاف سیاسی اور مزاحمتی محاذ چلائے جو ابھی تک وسیع اور عوامی سطح پر جاری اور ساری ہیں جو روز بروز شدت پکڑتے جا رہے ہیں۔

کالے کے ہاں بھی بلوچ کے لئے “تعلیم سب کے لئے” ناقابل قبول ہے جو ملک کے دوسرے حصوں میں شہریوں کو دلوایا جا رہا ہے،اور انگریز کی طرح انہوں نے بھی جانچ لیا ہے کہ یہ قوم کے بچے دل سے ہمیں کبھی تسلیم نہیں کرتے پھر ان کو تعلیم دلوانے کی بجائے پسماندہ رکھا جائے جس کی مثال یہاں سے ملتی ہے کہ ملک بننے کہ بعد اب بلوچستان کے کچھ حصوں میں کچھ تعلیمی ادارے کھلوائے ہیں اور ان کو بھی بند رکھنے کے لئے طرح طرح کی سازش کے ساتھ ساتھ مالی مشکلات سے بھی دو چار کیا گیا ہے۔ جہاں اساتذہ بچوں کو کلاس روم اور تحقیقی سنٹرز میں پڑھانے کے بجائے روڈ،پریس کلب اور شاہراہوں پر اپنی تنخواہیں کی بندش کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان اساتذہ کو کئی کئی مہینے تنخواہیں نہ دینے کی وجہ سے کئی اساتذہ دل برداشتہ ہو کر تعلیمی اداروں سے رخصت ہو رہے ہیں یا 18،19 گریڈ پر ہونے کے باوجود پٹواری، نائب تحصیلدار اور تحصیلدار (گریڈ 14,16) کے تحریری امتحانات میں دکھائی دیے گئے ہیں جو قابل افسوس ہے۔

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں تعلیمی اداروں اور تعلیمی ماحول کو ختم کرنے کے لئے طرح طرح کے سازشیں ہو رہی ہے. جو 2013 میں پنجگور میں خواتینوں کی تعلیم کو ختم کرنے کے لئے مذہبی شدد پسند فرقان السلام نامی تنظیم کے نام پر پمفلیٹ تقسیم کیا گیا اور تعلیم دوست ظاہر بلوچ کو انتہائی مجبور کیا گیا کہ اس نے اپنے اکیڈمی کو بند کر کے حب چوکی منتقل ہوا۔تربت میں نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں ڈیلٹا اکیڈمی کو بند کرنے کے لئے بھی کوشش کی گئی ۔تعلیم سے منسلک استاتذہ زائد آسکانی ،رزاق زہری اور پروفیسر صباہ دشتیاری کو شہید کیا گیا ۔تعلیمی اداروں کے ساتھ فوج کیمپ بنائے گئے ہیں تاکہ طلبا پڑھنے کے بجائے خود دہ رہے اور دور دراز کے اسکول میں اکثر فوجی چوکیاں بنائے گئے ہیں ۔خاران گرلز ڈگری کالج کو ایف سی کیمپ کے نام پر قبضہ کیا جا رہا جس کے خلاف طالبہ سڑکوں پر نکلے ہیں اور اب سنے میں آرہا ہے وہاں زمباد کے ٹوکن تقسیم ہو رہے ہیں ۔بلوچستان میں کتابوں کو گرفتار کیا جا رہا جہاں منشیات سرعام فروخت ہو رہے ہیں۔

بلوچ جب بلوچستان سے باہر پڑھنے کے لئے جاتے ہیں تو ان کو یا تو پروفائلنگ کے نام پر زلیل کیا جاتا ہے یا ریاست کے پشت پناہی پر جماعت اسلامی کے زریعے ان کے پیٹھائی کر کے لہو لہان کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے تعلیم ادھورا کر کے چلا جائیں ۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *