زمانہ قدیم سے بنگلہ دیش برصغیر میں ایک زہر بحث موضوع رہا ہے جو کہ پہلے برطانیہ کے زیر اثر بعد میں پاکستان کا حصہ رہا، 1971 میں آزادی کی وحشیانہ جنگ کے بعد آزادی حاصل کی، ملک کے ابتدائی سال سیاسی عدم استحکام، فوجی بغاوتوں اور اقتصادی چیلنجوں کے نشان زد میں تھے۔ بنگلہ دیش کے بانی اور عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کو 1975 میں قتل کر دیا گیا، جس کی وجہ سے مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور فوجی حکمرانی نے زور پکڑ لی۔ یہ سلسلہ 1991 تک چلتا رہا، بالا اخر بنگلہ دیش نے جمہوری طرز عمل سے اپنی ایک نیا سفر کاغذ کر لیا، تو ہم شخصیات ملک کی طرز اور حکمرانی میں پیش رہے۔خالد ضیا اورشیخ حسینہ واجد ملک کی سیاست میں غالب شخصیت کے طور پر ابھریں۔

بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادی کا سفر ایک المناک تنازعہ سے گزرا۔ 1971 میں، مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کی طرف سے برسوں کے سیاسی اور ثقافتی جبر کے بعد، مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے لوگوں نے زیادہ خود مختاری اور اپنی لسانی اور قومی تشخس کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ صورت حال ایک مکمل جنگ میں بدل گئی جب پاکستانی فوج نے 25 مارچ 1971 کو یلغار شروع کیا، ایک نسل کشی مہم جس کا مقصد تحریک آزادی کو کچلنا تھا۔ فوج کی کارروائیوں میں بڑے پیمانے پر قتل، بڑے پیمانے پر عصمت دری، اور لاکھوں بنگالیوں کی بے گھر کرنا شامل تھا۔

اندازے سے بتایا جاتا ہے کہ 300,000 سے 30 لاکھ کے درمیان بنگالی مارے گئے، اور لاکھوں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بنگلہ دیش میں نسل کشی جنوبی ایشیا کی تاریخ کے سیاہ ترین بابوں میں سے ایک بن گئی۔ ہندوستان کی حمایت کے ساتھ، مکتی باہنی (لبریشن آرمی) کی قیادت میں بنگالی مزاحمت نے جوابی مقابلہ کیا، اور نو ماہ کے شدید تنازعے کے بعد، بنگلہ دیش نے 16 دسمبر 1971 کو اپنی آزادی کا اعلان کیا، جو آزادی کی تباہ کن جدوجہد کے خاتمے کی علامت ہے۔

بنگلہ دیش کی آزادی کی لڑائی کے دوران، طاقتور ممالک نے تنازعہ ہندوستان نے بنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں حامی کے طور پر ابھرا، جس نے مکتی باہی (لبریشن آرمی) کو اہم فوجی سازو سامان سفارتی مدد فراہم کی۔ بھارت کی مداخلت فیصلہ کن تھی، جس کا اختتام پاکستان کے ساتھ ایک فوجی تصادم میں ہوا جو بالآخر 16 دسمبر 1971 کو بنگلہ دیش کی آزادی پر کے اعلان پر اختتام پذیر ہوا۔ ۔ دوسری طرف، بعض اسلامی سیاسی جماعتوں کی حمایت یافتہ گروہ پاکستان کی فوج اور حکومت نے نسل کشی کے دوران ہونے والی بنگالیوں کی نسل کشی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تنازعہ کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور اس سے منسلک گینگ، جیسے البدر اور الشمس گروپ، بنگالی شہریوں کے خلاف مظالم میں برابر کے شریک تھے۔ ۔ ان اسلامی گروپوں نے علیحدگی پسند تحریک کو دبانے کی کوشش میں پاکستان کی فوج کے ساتھ بر بھرپور ساتھ دیا۔ ، جس کے نتیجے میں تنازعہ کے کچھ انتہائی ہولناک جرائم، جن میں اجتماعی قتل و غارت، عصمت دری، اور بنگالی دانشوروں کا منظم طریقے سے خاتمہ شامل ہے۔

سرحد (خیبر پختونخواہ) پشتون رہنما باچا خان اور بلوچ رہنما میر غوث بخش بزنجو، دونوں کو پاکستان کی تشکیل کو چیلنج کرنے اور بلوچ و پشتون قوم کے لیے علیحدہ ازاد ریاست کی وکالت کرنے کا ایک ہے موقع ملا تو پشتون عوام نے اپنے سیاسی رہنما با چا خان کا ساتھ نہیں دیا جس کی وجہ سے اس کی ہمت حوصلہ پست ہو گئے، اور بلوچ رہنما میر غوث بخش بزنجو نامعلوم وجوہات کے بنا پر اپنے موقف سے دستبردار ہو گئے، بالا اخر دونوں رہنماؤں نے علیحدہ ریاست بنانے کے بجائے سمجھوتہ کر کے مذاکرات کو ترجیح دی۔ ۔ باچا خان، جسے “فرنٹیئر کی گاندھی” کے نام سے جانا جاتا ہے، عدم تشدد کے سخت حامی تھے اور ایک متحدہ ہندوستان کے نظریہ کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے تھے، جس نے پاکستان کے بننے کے بعد علیحدگی پسندی کو قبول کرنا مشکل بنا دیا۔ برصغیر کی تقسیم کے دوران مسلم لیگی رہنماؤں نے باچا خان اور اس کی پارٹی خدائی خدمتگار سے بے وفائی کی جنہوں نے تقسیم ہند کے بعد پشتون کے لیے ہے الگ ریاست بنانے کی یقین دہانی کی تھی۔ اسی طرح، میر غوث بخش بزنجو، اگرچہ بلوچستان کے حوالے سے مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے سخت نا خش تھے، لیکن مسلح جدوجہد کے بجائے سیاسی ذرائع سے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے مکمل آزادی کے بجائے پاکستان کے اندر رہ کر خودمختاری کی وکالت کی، جس کی ایک وجہ بلوچ آزادی کے لیے جغرافی اور بین الاقوامی حمایت کا فقدان اور بلوچ قیادت میں اندرونی تقسیم ہے۔ دونوں رہنماؤں کے عملی فیصلے اس وقت کی پیچیدہ جغرافیائی سیاسی حقیقتوں، تشکیل نو شدہ ریاست پاکستان کی فوجی طاقت، اور بیرونی حمایت کی عدم موجودگی سے متاثر تھے جس کی وجہ سے آزادی کی کوشش ممکن ہو سکتی تھی۔ اس دوران جب میر غوث بخش بزنجو نے پاکستان کے اندر سیاسی حل اور خودمختاری کی وکالت کی تھی،توبہت سے بلوچ قوم پرست رہنما اور بلوچ عوام ، طبقات ان کے موقف پر سخت مایوس اور تنقید کا شکار تھے۔

نواب خیر بخش مری اور سردار عطاء اللہ مینگل جیسے رہنما، جو پاکستانی ریاست کے خلاف مزاحمت کی طرف زیادہ مائل تھے، بزنجو کے نقطہ نظر کو بہت زیادہ مفاہمت پر مبنی اور بلوچوں کی خودمختاری یا یہاں تک کہ آزادی کے مطالبے پر سمجھوتہ کرنے کے طور پر دیکھتے تھے۔ یہاں بلوچ قوم دو طبقے میں تقسیم ہو گئے، ایک بنیاد پرست اور دوسری قوم پرست یہ الگ دڑوں میں اختلافات کی وجہ سے بلوچ قوم تقسیم کا شکار ہو ہوئے عوام کے درمیان ایک مایوسی پھیل گئی، کیونکہ انہوں نے محسوس کیا کہ بزنجو کی اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی نے بلوچ عوام کی حق خود ارادیت اور آزادی کی خواہشات کے ساتھ دھوکہ کیا گیا۔

کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں سیاسی اجتماعات اور احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کیا گیا، جہاں بزنجو کے نقطہ نظر کے خلاف نعرے لگائے گئے، اور مزید سخت موقف اختیار کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ تاکہ بلوچ قوم غلامی سے چھٹکارا پاسکیں ،اجتماعات بلوچ عوامی قیادت اور عوام کے اندر بڑھتی ہوئی تقسیم کی عکاسی کرتے ہیں، بہت سے لوگ اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے ایک مضبوط، زیادہ تصادم کے انداز پر زور دیتے ہیں۔ درحقیقت دیکھا جائے اگر بلوچ قیادت یہ فیصلہ کرتی کہ ہم اپنی شناخت کے لیے اس خطے میں الگ ریاست کی تشکیل کو یقینی بنائیں تو شاید یہ ممکن ہوتا کیونکہ پاکستان ایک غضبناک بوران کا شکار تھا۔ مگر اس سے پہلے بلوچ قیادت نے ایک تاریخی غلطی کی تھی جو کہ ہمسایہ اقوام اور عالمی طاقتوں سے ڈپلومیٹک ریلیشن نہیں بنایا تھا کیونکہ ان کی نمائندگی بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ عالمی طاقتوروں بشمول بھارت نے بلوچ قوم کی خاطر خواہ تعاون نہیں کی جس کی وجہ سے بلوچ کو یہ جنگ وسائل کی کمی جنگی سازوسامان نہ ہونے کی وجہ سے نہیں لڑ سکتی تھی۔

ایک تو وجہ یہ ہے کہ بھارت کی توجہ زیادہ بنگلہ دیش کی طرف تھا کہ بنگلہ دیش کو پاکستان سے الگ کر کے پاکستان کو کمزور بنا نے کامیاب تجربہ کریں۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی،، ریاستیں ایک خودمختار ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت، علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت کرنے پر سفارتی تعلقات اور استحکام کو ترجیح دینے کے بارے میں محتاط رہتے ہے۔ جغرافیائی سیاسی پیچیدگیوں اور علاقائی استحکام، خدشات کے ساتھ مل کر متحد بین الاقوامی موقف کی کمی کا مطلب یہ تھا کہ بلوچ قوم پرست رہنماؤں کو پاکستانی ریاست کو مؤثر طریقے سے چیلنج کرنے کے لیے درکار مضبوط بیرونی حمایت حاصل نہیں ہوئی۔ شیخ حسینہ تین بار بنگلہ دیش کی وزیر اعظم رہ چکی ہیں، پہلے 1996 سے 2001 تک، پھر 2009 سے 2014 تک، اور آخر کار 2014 سے اپنے استعفیٰ تک۔ ان کی قیادت کو معیشت کو مستحکم کرنے، بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور عالمی سطح پر بنگلہ دیش کی خودمختاری پر زور دینے کی کوششوں سے نشان زد کیا گیا ہے۔ ان کے دور حکومت میں، بنگلہ دیش نے نمایاں اقتصادی ترقی کی، جو دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک بن گئ۔ مگر شیخ حسینہ کے اوپر عالیہ الیکشن میں دھاندلی شرابہ رچایا ہوا تھا، بدعنوانی کے سنگین الزامات کا سامنا کر رہی تھی، اقتدار میں مسلسل قبضہ کرنا اور ایک عامر اور حکمران کے حیثیت سے حکومت کر رہی تھی۔ اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لینا اس کی ترجیحات میں شامل تھی ، حتی کہ حسینہ انسانی حقوق کی پال پامالیوں میں بھی مسلسل مصروف عمل رہے۔

دوسری جانب،سابق صدر ضیاء الرحمن کی بیوہ خالدہ ضیاء بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی رہنما ہے ، جو کہ دو مرتبہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہ چکی ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد ان دونوں رہنماؤں نے اقتدار تبدیل کیے، ان کی جماعتیں ملک کے لیے بالکل مختلف نظریات کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ خالدہ ضیاء کے دور پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوششوں سے نشان زد تھا، اس کے برعکس حسینہ کی توجہ ہندوستان اور مغرب پر تھی۔ ان دونوں رہنماؤں کے درمیان دشمنی کا نتیجہ اکثر سیاسی گڑبڑ، تشدد اور وسیع پیمانے پر بدعنوانی کی صورت رہا، حالیہ برسوں میں، ضیاء کو بدعنوانی کے الزامات میں قانونی چیلنجز اور قید کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بارے میں ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی طور پر محرک ہیں۔ خالدہ ضیاء اور شیخ حسینہ، بنگلہ دیشی سیاست کی دو اہم شخصیتیں، حکمرانی اور اصلاحات کے لیے الگ الگ نقطہ نظر کی نمائندگی کرتی ہیں۔ عوامی لیگ کی رہنما شیخ حسینہ کو اکثر اہم اقتصادی اصلاحات اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کا سہارا دیا جاتا ہے، جو بنگلہ دیش کو متاثر کن ترقی اور جدیدیت کی طرف لے جا رہے تھی ،ان کے دور حکومت میں آمریت کے الزامات کے باوجود، جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کی کوششوں کے ساتھ صحت، تعلیم اور خواتین کو بااختیار بنانے میں پیش رفت دیکھنے کو ملیں۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی، ارٹیفیشل انٹیلیجنس، ریسرچ، فری لانسنگ میں بنگلہ دیش نے گزشتہ کچھ سالوں سے اپنا نام بنایا جو کہ اکثر نوجوان طبقہ اپنی ہنر اور علم کی وجہ سے خود مختار رہے۔ عالمی منڈی میں ذرے پیداوار میں بڑا اضافہ ہوا جس نے بنگلہ دیش کی تاریخ بدل دی۔ ۔ اس کے برعکس، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی رہنما خالدہ ضیاء، سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی پر اپنی توجہ کے لیے جانی جاتی ہیں، حالانکہ ان کا دور بدعنوانی کے اسکینڈلز اور مبینہ بدانتظامی کی وجہ سے متاثر ہوا تھا۔ ضیاء کی پالیسیوں نے روایتی اقدار پر زور دیا اور پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا۔ دونوں رہنماؤں نے اپنی سیاسی طاقت کو تقویت دینے کے لیے اسٹریٹجک اتحاد بنائے ہیں: حسینہ نے ہندوستان کی کانگریس پارٹی اور مختلف بین الاقوامی عطیہ دہندگان کے ساتھ، جب کہ ضیاء نے پاکستان اور مختلف قدامت پسند اسلامی گروپوں سے مدد طلب کی ہے۔ “بہترین” لیڈر کا تعین استعمال کیے جانے والے معیار پر منحصر ہے —

حسینہ کی اصلاحات اور اقتصادی ترقی ضیاء کے استحکام اور روایتی اقدار کے نقطہ نظر کے برعکس، جو بنگلہ دیش کے پیچیدہ سیاسی منظر نامے کی عکاسی کرتی ہے۔ بنگلہ دیش میں حالیہ برسوں میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوا، جس کا اختتام شیخ حسینہ کے حالیہ استعفیٰ پر ہوا۔ طالب علموں کے احتجاج، خاص طور پر سرکاری ملازمتوں میں متنازعہ شہداء کے 30٪ کوٹہ سسٹم کے خلاف، نے نوجوان آبادی میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی کو اجاگر کیا۔ یہ کوٹہ سسٹم، جو 1971 کی جنگ میں مرنے والوں کے خاندانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کا ایک بڑا حصہ محفوظ رکھتا ہے، کو فرسودہ اور غیر منصفانہ قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس نظام کے خلاف مظاہرے بنگلہ دیشی معاشرے میں بدعنوانی، بے روزگاری اور سمجھی جانے والی عدم مساوات کے حوالے سے وسیع تر مایوسیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان مظاہرین کا ساتھ اکثر بیرونی طاقتوں نے دیا، ایک وسیع تر “نیو ورلڈ آرڈر” اور “گریٹ گیم” کی ایک بنیاد بھی ہے بنگلہ دیش کی سٹریٹیجک اور جغرافی مفاد نے عالمی طاقتوں کو مجبور کیا کہ وہ بنگلہ دیش میں اپنی مفادات کی بنیاد پر حکم چلائیں، بنگلہ دیش خود بھی اس گراؤنڈ میں ایک کھلاڑی ہے ۔ بھارت نے تاریخی طور پر عوامی لیگ اور شیخ حسینہ کی حمایت کی ہے، اس کی حکومت کو خطے میں ایک مستحکم قوت کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ دوسری طرف چائنا نے (BRI)، کو کامیاب بنانے،سرمایہ کاری اور تجارت کے ذریعے بنگلہ دیش میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ نے جنوبی ایشیا میں انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے اور اپنی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے بنگلہ دیش میں دلچسپی ظاہرکرتی ہیں۔ بنگلہ دیش کے سیاسی منظر نامے میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کا اثر عوامی لیگ کی حمایت میں نظر آتا ہے، جب کہ چین کے معاشی مفادات بنگلہ دیش کے ترقیاتی منصوبوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق اور جمہوریت پر امریکہ کی توجہ حسینہ کی حکومت پر تنقید کا باعث بنی، لیکن وہ بنگلہ دیش کو دہشت گردی کے خلاف ایک شراکت دار کے طور پر بھی اہمیت دیتا ہے۔

جنوبی ایشیا میں اکثر ممالک کے اندر ایک سیاسی گہما گہمی مچ گئی ہے ۔ عالیہ واقعات و خطرات اتار چڑھاؤ نے خطے میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ ان کے دانے بانے New world Order” اور “Clash of Civalization” کا بیانیہ ہے. ۔ ایران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے ساتھ ساتھ ایران کے صدر اور دیگر عہدیداروں کی ہلاکت کا المناک حادثہ، مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا اشارہ ہے، جس کے جنوبی ایشیا کے لیے اہم مضمرات ہیں۔ تھائی لینڈ کے وزیر اعظم کی برطرفی، جاپان کے وزیر اعظم کا استعفیٰ، اور سری لنکا کی معاشی تباہی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے مظاہرے علاقائی عدم استحکام کےکی طرف دھکیل رہا ہے۔ دریں اثنا، عراق، افغانستان، شام، پاکستان، اور جنوبی ایشیا کے دیگر حصوں میں ISIS کا دوبارہ سر اٹھانا انتہا پسندانہ تشدد کے مستقل خطرے کو واضح کرتا ہے۔ عالیہ افغانستان میں طالبان کا اقتدار میں قبضہ کرنا چائنہ کا طالبان سے اچھے تعلقات کا خواہان ایران میں چابہار پورٹ کے ذریعے سی پیک روٹ وسط اشیا سے ملا کر ایک ایک خواب کی تعمیر کی جانب رواں ہےایران میں عالیہ مذہبی کشیدگی کے ساتھ ساتھ مذہبی عسکریت پسندوں کی جانب سے کاروائیوں میں تیزی دیکھنے کو مل رہا ہے جو کہ اس زاویہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ بحران چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے ارد گرد موجود سٹریٹجک اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا کی تاریخ میں ایک نیا باب ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے ارد گرد موجود سٹریٹجک مفادات اس سے جڑے ہوئے ہیں، بلوچستان میں موجودہ ہونے والے سیاسی ہل چل اور بلوچستان کی اس خطے میں اپنی جغرافی حیثیت نے بلوچستان کو ایک خطرناک جنگی لپیٹ میں لینے جا رہا ہے یہی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بلوچستان عالمی طاقتوں کا جنگی میدان کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔ جیسا کہ امریکہ، چین، روس جیسی عالمی طاقتیں اور ہندوستان اور ایران جیسے علاقائی کھلاڑی اثر و رسوخ کے لیے جوڑ توڑ کر رہے ہیں، یہ خطہ نظریات اور مفادات کے لیے میدان جنگ بنتا جا رہا ہے، جو وسی تر “Clash of Civalization” کی عکاسی کرتا ہے۔ پورے جنوبی ایشیا میں عدم استحکام نہ صرف اندرونی سیاسی ناکامیوں کا عکاس ہے بلکہ بیرونی قوتوں کی جانب سے خطے کے مستقبل کو تشکیل دینے کا نتیجہ بھی ہے، جو اسے عالمی طاقت کی کشمکش میں ایک اہم جز ہے۔ شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے اور نگراں حکومت کی باگ دس حکومت سنبھالنے کے بعد بنگلہ دیش کا مستقبل غیر یقینی ہے عالیہ بنگلہ دیش بوران کا شکار ہے بڑھتی ہوئی عوامی بے اطمینانی، طلبہ کے احتجاج، اور علاقائی طاقت کی کشمکش یہ سب اس کی رفتار کو تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

چلیں یہاں مان لیتے ہیں شیخ حسینہ اگر ظالم حکمرانوں میں تھی جس سے ہوا کچھ نہیں تھی بالخصوص طلبہ تنظیمیں شیخ حسینہ کے استعفی کا مطالبہ اور شیخ حسینہ کی ملک بدر ہونا ، ملک بھر میں سے بانی رہنما کے تصاویر اور سٹیچو کو نقصان پہنچانا شیخ مجیب الرحمن نظریات اور تصاویر سے اختلاف رکھنا بنگلہ دیش کے لیے ایک نیا حیران کن بحث بنا۔

بانی رہنما کی ایسی بے حرمتی خود بخود ایک سوالیہ نشان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ۔
بنگلہ دیش کا سیاسی منظر نامہ آنے والے ادوار میں ڈرامائی طور پر تبدیل ہو سکتا ہے، جس میں یا تو جمہوری اصولوں کی طرف واپسی یا مزید آمریت کی طرف اقتدار پر قبضہ کرنا کے امکانات ہیں۔ ۔ بین الاقوامی برادری اس پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ بنگلہ دیش کے آگے بڑھنے کے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمی جغرافیائی سیاست کے لیے بھی اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کا زوال وسیع تر Regional Politics حرکات سے گہرا تعلق ہے اگر جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں تبدیلی آتی ہے، کئی بیرونی طاقتیں جنوبی ایشیا کے مستقبل پر اثر انداز ہونے کے لیے خود کو تیار کر رہی ہیں۔ عیسائی ریاستیں، خاص طور پر اپنے عالمی ڈائاسپورا کے ذریعے، علاقائی خودمختاری اور ممکنہ ریاست کی تخلیق زیر بحث ہے شاید جنوب ایشیا میں عیسائیت کو فروغ دینا، جو جنوبی ایشیا کے سیاسی تبدیلیوں پیچیدگی کی اک خلاصہ ہے ۔ (BRI)، بشمول پاک چاہنا اقتصادی راہداری (CPEC)، ریجنل پالیسیوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے، بلوچستان میں گوادر بندرگاہ چین کے اسٹریٹجک اور اقتصادی مفادات کے لیے ایک اہم اثاثہ ہے۔ اس کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ گوادر اور اس کے آس پاس کے بلوچستان کے دیگر علاقے کو عالمی طاقتوں بشمول امریکہ، چین، روس، متحدہ عرب امارات، ایران، بھارت اور افغانستان کے درمیان جغرافیائی سیاسی چالبازیوں کے لیے ایک”WAR ZONE” جنگی میدان کے طور پر تصور کیا جا سکتا ہے .

موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، بلوچ کی تشخص اور بلوچستان ایک خطرے میں ہے. اگر بلوچ قوم اپنی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یقینا بلوچ قوم کے لیے یہ جنگ جنگ نہیں بلکہ opportunity بھی بن سکتا ہے گریٹ گیم کو پلٹنا اب بلوچ عوام کی ہاتھ لگ چکی ہے. جیسے کہ تاریخی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو بلوچستان دنیا کی اس خطے میں واقع ہے جہاں تاریخی طور پر دنیا کے ہم ترین طاقتور کے درمیان بلوچ میں اپنی سرزمین کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور ان طاقتور عالمی قوتوں کو شکست سے دوچار کیا ہے ہر دور میں بلوچ مزمت کا سہارا لیتے ہوئے اپنے سرزمین کے لیے مر مٹنے کو ترجیح دیتا ہے. شاید یہی وجہ ہے کہ بلوچ عالمی قوتوں کے درمیان بلوچستان کے تاریخی نام اور مقام وجود رکھتی ہیں. 700 مربع میٹر بحر عرب بلوچ سرزمین میں گوادر کی اہمیت ایک گیٹ وے اہمیت کا حامل ہے .دنیا کو ملانے والی یہ روٹ صرف معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے نہیں بلکہ معاشی حوالے سے بھی اپنی تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گوادر بلوچ اور بلوچستان عالمی طاقتوں کے لیے ایک جنگی مرکز بننے جا رہا ہے ۔بلوچ قوم کی طرف سے خدشہ یہ زائد کیا جا رہا ہے کہ بلوچ کی شناخت اور خود مختیاری ک خطرہ ہیں۔ اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے، بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتوں کو اندرونی تقسیم پر قابو پانا ہوگا اور بیرونی قوتوں کے وجود کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششوں میں متحد ہوکر جامعہ حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ بلوچ قوم پرست رہنماؤں کی سربراہی گرینڈ اجلاس بلانے سے، یہ جماعتیں عالمی سطح پر اپنی آواز بلند کر سکتی ہیں، اپنے حقوق کی وکالت کر سکتی ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کر سکتی ہیں کہ بلوچستان اور گوادر کی سٹریٹجک اہمیت ان کی ثقافتی اور سیاسی خودمختاری ہر قیمت پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ متحد ہونے اور فیصلہ کن طور پر کام کرنے میں ناکامی کا نتیجہ بلوچ شناخت کو مٹانے اور ان کی سٹریٹجک اہمیت کو مجروح کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *