کچھ سانحات صرف جان لیوا نہیں ہوتے بلکہ پورے معاشرے کی روح کو چیر کے رکھ دیتے ہیں ، وہ لمحہ جب ایک عورت کی زندگی بندوق کی نوک پر صرف اس لئے ختم کردی جاتی ہے کہ اُس نے اپنی مرضی سے جینے کی تمنا کی ، یہ لمحہ ایک ایسا آئینہ بن جاتا ہے کہ جس میں ہمیں اپنی اصل حقیقت دکھائی دیتی ہے۔
اس میں دو راۓ نہیں کہ یہ ایک سفاکانہ قتل تھا، اس کی نہ کوئی توجیہہ ہے نہ کوئی دلیل اور نہ ہی کوئی جواز پیش کیا جاسکتا ہے ، کسی عورت کو کسی تعلق کی بنیاد پر قتل کرنا سماج کی تنزلی کی علامت ہے اور تنزلی کو “غیرت” یا روایت کا نام دینا نہ صرف بے حسی ہے بلکہ جرم میں شریک ہونے کا واضح اعلان بھی ہے۔
یقینا یہ سرزمین ایسی درندگی کی امین نہیں رہی ہے ، یہ سوچ، یہ روایت ، یہ بیماری درآمد شدہ ہے ، یہ بربریت یہ درندگی نہ بلوچیت کا عکس ہے نہ ہی اس دھرتی سے جنم لی ہے بلکہ ایک طویل غلامانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے ، جسے جاگیرداری نظام نے مزید مؤثر بنایا ، جس طرح اس ذہنیت کا روایات کے نام پہ پھیلاؤ ایک خطرناک عمل ہے ، اسی طرح اسے قبائلی روایت کا نام دے کر ہر قبائلی روایت کو رد کرنا اس سے بڑھ کر خطرناک رجحان ہے ، جو اسی آقا کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جو اسےُ محض “بلوچیت” کہہ کر بلوچیت کو کوس رہا ہے۔
انسانی فطرت میں مہر و قربانی اور مروت ہمیشہ سے شامل رہے ہیں ، تاریخ گواہ ہے کہ جب جب اس فطرت کو دبانے کی کوشش کی گئی ، چاہے وہ پتھر کی ضرب ہو یا گولی کی مار ، یہ فطرت کسی نہ کسی شکل میں ابھرتی رہی ہے ، وہ عورت جو ماری گئی ، دفن کی گئی ، اس کی یاد ، اس کا لہو ہمیشہ تاریخ کا حصہ بنا۔
اس واقعے کو دیکھتے ہی مجھے ایک جملہ بے ساختہ یاد آیا ، جب ایک عورت کو سنگساری (رجم سازی ) کے لیے لایا گیا تو وہ پکار اٹھی کہ “مجھے پہلا پتھر وہ شخص مارے جس نے کبھی کسی عورت کو ایسی نظر سے نہیں دیکھا ہو ” لیکن ہجوم میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہوتا جو اس شرط پہ پورا اتر کر پتھر پھینک سکے ، کاش بانو بھی یہ کہنے کی بجاۓ “نمے صرف سُم نا اجازت اے” یہی کہتی “مجھے گولی وہ شخص مارے جس نے کبھی کسی عورت کو اس نظر سے نہیں دیکھا” تو یقین جانیے سردار سے لے موجود عام تماش بینوں تک کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو بانو پہ بندوق تھام لیتا، لیکن اس بدبودار سماج میں اتنا ظرف کہاں کہ ایک لمحے کے لیے اپنے گریبانوں میں جھانک سکیں۔
ایسی بے بس عورتیں ہر معاشرے اور ہر طبقے میں پائی جاتی ہیں ، صرف طریقہ واردات بدلتا ہے ، ان واقعات کو اکثر پردے میں رکھا جاتا ہے وہ نہ کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہوتے ہیں ، نہ ادب کے کسی گوشے میں ان کےُ لیے جگہ ہوتی ہے ، جیسے کہ یہاں ادب میں “ماہ گل “ افسانوی کردار “ سیاہ کار دیرے”جیسے کرداروں کو نہ صرف جگہ ملی ہے بلکہ ان پہ ڈرامے بھی بنے ہیں ، یہ پہلا واقعہ نہیں تھا نہ شاید آخری واقعہ ہو فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار کیمرے کی آنکھ نے وہ لمحہ محفوظ کرلیا اور سماجُ کی درندگی کو بے نقاب کردیا۔
نہ جانے کتنے ایسے واقعات ہوتے ہیں جن پہ خاموشی طاری ہوجاتی ہے کیا ہمیں احساس ہے کہ سماج میں کوئی نہ کوئی بانو زبان یا شغان سے “سیاہ کار” ہوتی ہے لیکن ہم صرف وہی دیکھتے ہیں جو ہمیں یا تو دکھایا جاتا ہے یا کیمرے کی آنکھ محفوظ کرتی ہے باقی مظالم فضاء میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔
ہمارا سماج ضرور ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے لیکن ارتقاء کو بھی کبھی کبھار چپ لگ جاتی ہے ہمیں اس چپ کو آواز دینی ہے ہمیں ان بے بس عورتوں کی آواز بننا ہے جنہیں بندوق کی نوک پر ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا جاتاہے ، یا جن کی کردارکشی کی جاتی ہے یا جن کے خواب مسخ کردیے جاتے ہیں یا جنہیں ہراساں کیا جاتا ہے جو کہ اب ایک مشغلہ بن چکاہے۔
یاد رکھیے ریاست ہمیشہ ان بندوق برداروں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے جنہوں نے زن کُشی ، بردار کُشی ، زمین فروشی و ضمیر فروشی کو اپنا پیشہ و ایمان بنالیا ہو یہ ریاست کبھی بھی ایسے قاتل کو سزا نہیں دلاۓ گی بلکہ ان کی پشت پناہی کریگی ان قاتلوں کو ریاست سے ہی حوصلہ و اسلحہ ملتا ہے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ان سے کوئ نہیں پوچھے گا۔
احسان سمالانی جو اپنے بیٹے کے ساتھ بازار سے واپس آرہے تھے ، جب انہیں پتہ چلتا ہے کچھ لوگ ان کا پیچھا کررہے ہیں تو کسی کے گھر میں پناہ لیتا ہے ، لیکن مسلح افراد بلوچی روایت “باہوٹ” کو پامال کرتے ہوئے بندوق کے زور پر اسے اٹھا لیتے ہیں ، اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر پہلے اسے مارا پیٹا جاتا ہے پھر اسکے خاندان و قبیلہ کو اعتماد میں لئے بغیر مقتل گاہ لے جاکر سردار کے ایماء پر قتل کردیتے ہیں۔
بانو ساتکزئی جو اپنے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ ہوتی ہے جسے اس کی بہن پہلے سے اطلاع دیتی ہے کہ “احسان کو پکڑلیا گیا ہے اب تمہیں لینے آرہے ہیں “ بانو نہ بھاگتی ہے نہ چھپتی ہے ، نہ بچوں کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرتی ہے بلکہ ایک ماں کی طرح بچوں کو سینے سے لگاکر چومتی ہے ، اپنے بچوں اور سب سے بڑھ کر شوہر کو حوصلہ دیتے ہوۓ مہر پہ ثابت قدم رہ کر اپنے آپ کو درندوں کے حوالہ کردیتی ہے اور کہتی ہے کہ “ مجھے پتہ ہے کہ آپ لوگ مجھے کہاں اور کیوں لے جارہے ہو” وہ ان درندوں کے سامنے نہ آہ و بکاہ کرتی ہے نہ رحم کی بھیک مانگتی ہے، بلکہ خود ہی اپنی عزت کی موت کی ضمانت طے کرتی ہے کہ “مجھے نہ پتھر سے مارا جاہیگا ، نہ میرے کپڑے کھینچے جاہیں گے نہ میری شال کھینچی جائےگی تم لوگوں کو صرف گولی مارنے کی اجازت ہوگی “ اسی ضمانت کے تحت جب وہ مقتل گاہ کی جانب وقار و عظمت سے بڑھتی ہے، اپنے کپڑے سمیٹتے ہوۓ جانور نما انسانوں سے کہتی ہے “نمے صرف سُم نا اجازت اے” یعنی تمہیں صرف گولی مارنے کی اجازت ہے ۔ اس کے لہجے کا اعتماد، اس کی خاموشی کی گرج، اور اس کا وقار سب کچھ ان ظالموں کے منہ پر طمانچہ تھا۔
الغرض اس واقعہ کی آڑ میں ایسے کم ظرف دشمن سے گلہ و شکوہ کرنا بیکار ہے جو اسے محض” بیانیے کی جنگ “ قرار دے کر اسی بہانے بلوچیت اوربلوچ قومی تحریک کے خلاف اس واقعے کو استعمال کرتے رہے، ان کی اپنی تاریخ بنگلہُ دیش میں کیا رہی ہے؟ جس کی طرف شاعر کا اشارہ ہے کہ “ان کی تقدیر کیا تم بدلتے مگر ،ان کی نسلیں بدلنے کو تم آۓ تھے” اور آج کئی زرینہ مری اور ماہ جبیں جیسی پھول ان کے اذیت گاہوں میں بے یار و مددگار زندہ لاشوں کی طرح پڑے ہوۓ ہیں ، مگر کسی قلم میں جنبش نہیں آتی ۔ لیکن ہمیں اپنے آپ سے ضرور گلہ و شکوہ کرنا چاہیے کہ ہم نے زمینی حقائق کو اس کی کلیت میں سمجھے بغیر اور اس درد و اذیت کو محسوس کیے بغیر صرف مکھی کی طرح گند پہ بیٹھ کر بھنبھناتے رہے۔
Add comment