بلوچستان کی دھرتی ایک بار پھر لہو میں نہلا دی گئی۔ ضلع پنجگور کے علاقے پنچی میں ایک خاتون کو شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد نیم مردہ حالت میں اسپتال کے دروازے پر پھینک دیا گیا۔ اسپتال کے عملے نے اسے علاج کے لیے داخل کیا مگر شام ہوتے ہوتے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ وہ خاتون زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی۔

یہ خبر سن کر پنجگور کے لوگوں کے دل لرز اٹھے۔ ایک طرف انسانی ہمدردی کا جذبہ انہیں اسپتال کی طرف لے جا رہا تھا، دوسری طرف شرم، غم اور غصے نے ان کے دلوں کو جکڑ رکھا تھا۔ بلوچ سماج میں عورت محض “صنفِ نازک” نہیں بلکہ عزت، غیرت اور قبیلے کی حرمت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ وہاں کسی عورت پر ہاتھ اٹھانا توہینِ بلوچ روایات سمجھا جاتا ہے، مگر یہاں ایک عورت کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اس کی شناخت تک مٹا دی گئی۔

یہ واقعہ جیسے ہی منظرِ عام پر آیا، پورا بلوچستان سوگوار ہو گیا۔
تاہم بعد ازاں پنجگور ٹیچنگ ہاسپٹل کے ذمہ داران سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ خاتون کو زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا تھا۔ وہ شدید زخمی تھی۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد اسپتال انتظامیہ نے ضلعی حکام کے تعاون سے تمام سفری لوازمات مکمل کیے اور خاتون کو کراچی ریفر کر دیا۔

لیکن افسوس کہ وہ بیسمہ پہنچتے ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے فوت ہوگئی۔

اس حوالے سے اسپتال انتظامیہ نے مزید بتایا کہ اس کی والدہ بھی پورے عمل کے دوران ساتھ تھیں۔

خاتون کو کراچی منتقل کرنے سے پہلے لیڈی ڈاکٹر نے طبی معائنہ کیا اور اپنی رپورٹ جمع کرائی ہے۔ رپورٹ کے مطابق خاتون پر ریپ (جنسی زیادتی) کے شواہد نہیں ملے۔

یہ پہلو واقعے کو ایک نیا رخ دیتا ہے، اور اس بات کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ اور تحقیقات کے نتائج سامنے آنے تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا۔

تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ ایک عورت کو زخمی حالت میں بے یار و مددگار اسپتال پہنچانا اور بعد ازاں اس کی موت واقع ہونا کسی بھی لحاظ سے معمولی واقعہ نہیں۔ بلوچ معاشرے میں عورت کی عزت کو پامال کرنے کا تصور بھی ناقابلِ قبول سمجھا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ خاتون کون تھی؟ وہ اس حال تک کیسے پہنچی؟ اور اگر جنسی زیادتی نہیں ہوئی تو پھر تشدد کا محرک کیا تھا؟

بلوچستان جیسے چھوٹے اور جڑے ہوئے معاشرے میں، جہاں ہر قبیلہ ایک دوسرے کو جانتا ہے، وہاں ایک عورت کا اس قدر بے شناخت ہو جانا ایک المیہ ہے۔

جب کسی معاشرے میں عورت کی شناخت گم ہو جائے، تو وہاں انسانیت بھی دم توڑ دیتی ہے۔ پنجگور کی یہ بے نام عورت آج پورے نظامِ انصاف سے سوال کر رہی ہے کہ اگر عورت کو تحفظ نہیں مل سکتا، تو پھر قانون اور ادارے کس کے لیے ہیں؟

بلوچستان پہلے ہی جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، اور ریاستی جبر سے زخم خوردہ ہے۔ اب اس میں خواتین پر تشدد کا یہ نیا باب شامل ہو گیا ہے۔ ایسے واقعات صرف ایک فرد کے خلاف نہیں، بلکہ پورے سماج کے خلاف جرم ہیں۔ مگر افسوس کہ ان واقعات پر حکومت کی زبان گنگ، انتظامیہ کی آنکھ بند، اور سماج کے بااثر حلقے خاموش نظر آتے ہیں۔

پنجگور جیسے علاقوں میں جہاں عورت کا گھر سے نکلنا بھی روایتی بندشوں سے جڑا ہوتا ہے، وہاں ایک بے نام عورت کا تشدد زدہ لاش بن جانا، کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔

کیا یہ عورت مقامی تھی؟ یا کہیں اور سے لا کر یہاں پھینکی گئی؟
کیا یہ انسانی اسمگلنگ اور ذاتی دشمنی یا خاندانی تنازع کا شاخسانہ تھا؟
ان سوالات کے جوابات صرف شفاف تحقیقات سے ہی ممکن ہیں۔

بلوچ سماج میں عورت ہمیشہ مزاحمت، محبت اور ماں کے روپ میں جانی جاتی ہے۔ اس کے خلاف ظلم محض فرد کی تذلیل نہیں، بلکہ پوری بلوچ تہذیب کی توہین ہے۔ بلوچستان کے لوگوں نے ہمیشہ اپنی روایات کی لاج رکھی ہے،

حکومتِ بلوچستان اور انتظامیہ کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اس واقعے کی غیر جانب دارانہ اور شفاف تحقیقات کرائے۔ خاتون کی شناخت سامنے لائی جائے، اس کے اہلِ خانہ کو انصاف دیا جائے، اور اگر کوئی مجرم ہے تو اسے مثالی سزا دی جائے۔

اگر اس واقعے کو دبانے یا چھپانے کی کوشش کی گئی، تو یہ صرف ایک عورت کا نہیں، بلکہ پورے بلوچ معاشرے کے ضمیر کا قتل ہوگا۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *