طبیعت بہت بگڑنے لگی تھی۔ گھر سے سڑک کی مسافت قریباً سات منٹ کی تھی پر درد کی شدت سے یوں معلوم ہوتا جیسےمیلوں کا سفر طے کرنا ہے۔۔۔۔

 بمشکل سڑک تک  پہنچے اوررکشہ کرکے ہسپتال کی جانب روانہ ہوئے ۔۔۔۔۔

ڈاکٹر کو آنے میں ابھی وقت تھا۔۔۔۔۔سر کے درد کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔۔۔۔

ایک عورت جو کہ اچھے نقوش کی مالک تھی، اس نے ہسپتال کا جائزہ لیتے ہوئے اس لڑکی سے پوچھا درد ہو رہا ہے۔۔۔؟

 لڑکی نے بیزاری سے جواب دیا جی۔۔۔۔۔

عورت نے جیسے مکالمہ جاری رکھنا تھا۔۔۔۔

 تو کوئی ساتھ نہیں ہے؟۔۔۔۔

 لڑکی نے منہ مڑے بغیر کہا نہیں۔۔۔۔۔

عورت نے بات جاری رکھی۔۔۔۔

 تمہارا باپ نہیں ہے کیا۔۔۔۔؟

 پھر خود ہی جواباً بولی ۔۔۔۔۔ کیسے نہیں ہوگا کہیں گیا ہوگا آجائے گا۔۔۔۔

 لڑکی کی آنکھوں سے آنسو گرتے رہے ۔۔۔۔۔

آجائے گا  تم روتی کیوں ہو؟۔۔۔۔پھر اپنے جیب سے ایک پرانا مُڑی سی ایک تصویر نکالی جو کہ پلاسٹک میں نفاست سے بند تھی۔۔۔۔

 کہنے لگی میرا شوہر بھی مریضوں کا علاج کرنے گیا تھا ابھی تک نہیں آیا۔۔۔۔۔

ڈاکٹر ہے وہ بڑا ڈاکر۔۔۔۔

 پھر لڑکی کے آنسو اپنے پلو سے صاف کیے۔۔۔۔۔

ارد گرد کے لوگوں کی نظر ان دونوں پر مرکوز تھی۔

 مریض نمبر 14 زرینہ بی بی کانام پکارا گیا۔۔۔۔۔

لڑکی نے عورت کا ہاتھ پکڑا اور کہا چلو اماں ماہر نفسیات آ گیا ہے ۔۔۔۔۔

لوگ حیرت سے ان کو تکتے رہ گئے۔۔۔۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *