*یوم اساتذہ کے پیچھے کی تاریخ:*
اساتذہ کو ابتداء ہی سے دنیا بھر میں ان کی بے لوث خدمات کے لیے سراہا جاتا رہا ہے۔ انہیں ایک قوم کا معمار سمجھا جاتا ہے۔ وہ پانچ یا چھ سال کی عمر سے لے کر 18 سے 20 سال کی عمر تک بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے، بچے کی ابتدائی سال اس بات کی تعین کرتے ہیں کہ وہ کس قسم کا شخص بنے گا، یہ عموماً ان کے اساتذہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
اساتذہ جس طرح کی لگن دکھاتے ہیں، اس کے لیے شکریہ ادا نہ کرنا غلط ہوگا۔
اساتذہ کا عالمی دن ایک بین الاقوامی دن ہے جو ہر سال 5 اکتوبر کو اساتذہ کے کام کو سرہانے کے لیے یادگار کے طور منایا جاتا ہے، یہ 1994 سے شروع کیا گیا، اور بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (ILO) اور اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (UNESCO) کی سفارشات پر دستخط کے یاد میں منایا جاتا ہے۔ 1966 کی “ILO/UNESCO سفارشات برائے اساتذہ کی حیثیت” ایک معیاری دستاویز ہے جو دنیا بھر میں اساتذہ کی حیثیت اور حالات پر بات کرتی ہے۔

یہ سفارشات تعلیمی عملے کی پالیسی، بھرتی، ابتدائی تربیت کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی مسلسل تعلیم، ان کی ملازمت اور کام کے حالات سے متعلق معیارات کو بیان کرتی ہیں۔

عالمی یوم اساتذہ کا مقصد “دنیا بھر میں اساتذہ کی قدردانی، جانچ اور بہتری” پر توجہ مرکوز کرنا اور اساتذہ اور تدریس سے متعلق مسائل پر غور کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔2024 میں عالمی یوم اساتذہ کا موضوع theme *”اساتذہ کی آواز کی قدرو اہمیت : تعلیم کے لیے ایک نئے سماجی معاہدے کی جانب”* ہے۔ اس بات پر زور دینا ہوگا کہ اساتذہ تعلیم کے مستقبل کو تشکیل دینے میں کس قدر اہم کردار ادا کرتے ہیں اور تعلیمی پالیسی اور فیصلے کرنے کے عمل میں ان کے نقطئہ نظر کو شامل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔اس سال کا موضوع theme ہمیں اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ معیاری تعلیم کے حصول میں جدت لانے کے لیئے اساتذہ کی وہی بھی ذمہداری ہوگی جو ملک کو چلانے کے لئیے پالیسی ساز (policy makers) کرتے ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق، 2024 تک پاکستان کی شرح خواندگی تقریباً 62 فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں ہر سو افراد میں سے تقریباً باسٹھ افراد پڑھ اور لکھ سکتے ہیں۔
پاکستان میں شرح خواندگی مختلف علاقوں میں نمایاں طور پر مختلف ہوتی ہے۔ اسلام آباد، کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں شرح خواندگی دیہی علاقوں کی نسبت بہت بہتر ہے۔ مثال کے طور پر، پنجاب، جو کہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ صوبوں میں سے ایک ہے، میں شرح خواندگی تقریباً 70 فیصد ہے، جبکہ بلوچستان میں یہ بہت کم ہے، تقریباً 40 فیصد۔ یہ علاقائی فرق خاص طور پر کم ترقی یافتہ علاقوں میں اسکولوں، اساتذہ اور تعلیمی وسائل کی کمی اور گوسٹ اسکولوں اور گوسٹ اساتذہ کی وجہ سے ہے جو کہ بلوچستان جیسے صوبہ میں ناسور کی طرح پورے خطے میں پھیل چکی ہے، کہ صوبہ بلوچستان میں اس ناسور کی روک تھام کیسے ہوسکتی ہے؟، یہ ایک دلچسپ اور الگ موضوع ہے اس پر الگ ہی غور فکر کرکے کوئی لائحہ عمل اختیار کرنی کی ضرورت ہے تو اس موضوع کے تبصرے کو فلحال ایک طرف رکھتے ہیں اور آج کے پیچیدہ اور نازک پہلو کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں استاد کیسے ایک ملک کی معیاری تعلیم میں بڑھوتری،اور تعلیم کے حصول کو پورے ملک کے ہر کونے میں پہنچا سکتا ہے۔؟

*SDGs (Sustainable Development Goals 2023) پائیدار ترقی کے اہداف* :

تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لئے اقوام متحدہ (United Nations) نے پائیدار ترقی کے اہداف( sustainable development goals : SDGs) مقرر کئے ہیں جو کہ 2030 تک تمام دنیا کو ان اہداف تک اپنے ملک میں یقینی بنانا کی سعی کا موقع دے رہے ہیں۔ یہ اہداف اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک نے ستمبر 2015 میں 2030 کے ایجنڈے برائے پائیدار ترقی کے حصے کے طور پر اپنائے، جو اہداف اور ان سے متعلقہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے 15 سالہ منصوبہ پیش کرتا ہے۔ اس سے پہلے کبھی عالمی رہنماؤں نے اتنے وسیع اور عالمی پالیسی ایجنڈے پر مشترکہ کارروائی کا عہد نہیں کیا تھا۔

ان اہداف کی تکمیل کے ذریعے دنیا کو عالم اقوام کے لئے بہترین مستقبل دینے کے کا ایک معمولی سا لائحہ عمل ہے جس کی تکمیل 2030 میں ہونی ہے تمام ممالک جو اقوام متحدہ سے منسلک ہیں اپنے ملک کے اہداف کی رپورٹ پیش کرینگے۔
پائیدار ترقی کے اہداف ایک عالمی اپیل ہے تاکہ تعلیم، صحت، امن سب کے لئے یکساں رہے، غربت کا خاتمہ کیا جا سکے، سیارے کی حفاظت کی جا سکے اور ہر جگہ ہر کسی کی زندگی اور امکانات کو بہتر بنایا جا سکے۔

یہ 17 اہداف آپس میں جڑے ہوئے ہیں، تمام ممالک پر لاگو ہوتے ہیں، اور انہیں تمام فریقوں – حکومتوں، نجی شعبے، سول سوسائٹی، اقوام متحدہ کے نظام اور دیگر ہر ایک کو ایک اشتراکی شراکت داری میں مل کر انجام دینا ہوگا۔

اس سال دنیا پائیدار ترقی کے اہداف کے نفاذ کے درمیانی حصے میں پہنچ چکی ہے تاہم، موجودہ صورتحال میں، دنیا 2030 تک بہت سے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو سکتی ہے۔ کئی دہائیوں میں پہلی بار، ترقیاتی پیش رفت رک گئی ہے اور یہاں تک کہ موسمیاتی آفات، تنازعات، معاشی بحران اور COVID-19 کے دیرپا اثرات کے مشترکہ بوجھ کے تحت الٹ بھی گئی ہے۔ 18 سے 19 ستمبر 2023 کو اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر نیویارک میں منعقد ہونے والی SDG سمٹ میں دنیا کے لیے ایک منفرد موقع ثابت ہوا کہ وہ بحران سے ترقی کی طرف جانے اور اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کون سے ضروری ضروری پیش رفت فراہم کرے یہ تو آنے والی رپوٹس میں اب شائع ہونگی کہ کون سا ملک اپنے کن اہداف کو سر کرچکا ہے۔چونکہ آج ہم نے sdgs پر تبصرہ نہیں کرنا کیونکہ مضمون طویل ہونے کے خاصے نقصانات ہیں اور میرا مضمون عالمی اساتذہ پر ہے تو میں sdgs کے اہداف نمبر 4 کو ہی موضوع بحث لاؤں گی۔
*اہداف 4 سب کے لیے جامع اور مساوی معیاری تعلیم کو یقینی بنانے اور زندگی بھر سیکھنے کے مواقع کو فروغ دینے کے لئے لائحہ عمل ہے* اہداف نمبر 4 نہ صرف طالب علم پر لاگو ہوتے ہیں بلکہ تعلیم اور تعلم سے منسلک وابستہ افراد کے لئے ضروری ہے کہ تعلیم کے شعبے میں سیکھنے اور سکھانے کے عمل کو جاری رکھے۔

*SDGs کے اہداف کا target 4.1 ہے :*
سب کے لیے جامع اور مساوی معیاری تعلیم کو یقینی بنائیں اور زندگی بھر سیکھنے کے مواقع کو فروغ دیں۔

سب کے لیے جامع اور مساوی معیاری تعلیم کو یقینی بنانا اور زندگی بھر سیکھنے کے مواقع کو فروغ دینا ایک ایسا ہدف ہے جس کا مقصد تمام افراد کو بغیر کسی تفریق کے معیاری تعلیم تک رسائی فراہم کرنا ہے۔ اس میں ہر عمر کے افراد کو برابر مواقع دینا شامل ہے، تاکہ وہ اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھ سکیں اور معاشرتی اور معاشی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ اس مقصد کے تحت ہر بچے کو سیکھنے کا مساوی حق حاصل ہونا چاہیے اور تعلیمی نظام کو ایسا بنایا جانا چاہیے جو ہر فرد کی ضرورتوں کے مطابق ہو، تاکہ وہ مؤثر طریقے سے سیکھ سکیں اور زندگی بھر اپنی قابلیتوں کو بہتر بنا سکیں۔ استاد کو نہ صرف علم فراہم کرنے والا بلکہ رہنمائی کرنے والا، معاشرتی اقدار سکھانے والا، اور بچوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے والا فرد ہونا چاہیے۔ استاد کو تعلیمی عمل کو جامع اور مساوی بنانے کے لیے مختلف تعلیمی پس منظر، صلاحیتوں اور معاشی حالات کے بچوں کو ایک جیسے مواقع فراہم کرنے پر توجہ دینی چاہیے، تاکہ کوئی بھی بچہ پیچھے نہ رہ جائے۔

ایک استاد کو زندگی بھر سیکھنے کے مواقع کو فروغ دینے کے لیے طلباء کو متنوع اور خودمختار انداز سے سیکھنے کی ترغیب دینی چاہیے، تاکہ وہ صرف کتابی علم تک محدود نہ رہیں بلکہ عملی زندگی کے مسائل کو سمجھ سکیں اور ان کا حل نکال سکیں۔ اساتذہ کو طلباء کی سوچنے کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے، تنقیدی سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کرنا ہوگا، تاکہ وہ مستقبل میں اپنے معاشرتی اور معاشی کردار کو مؤثر طریقے سے نبھا سکیں۔

مزید برآں، اساتذہ کو جدید تدریسی طریقوں اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونا چاہیے تاکہ وہ نئے تعلیمی چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں اور طلباء کو عالمی معیار کی تعلیم فراہم کر سکیں۔ تربیت یافتہ اور حوصلہ مند اساتذہ ہی ایسے تعلیمی ماحول کو ممکن بنا سکتے ہیں جہاں تمام بچے برابر مواقع کے ساتھ معیاری تعلیم حاصل کر سکیں۔

*بلوچستان کی تعلیم میں پس پشت رہنے کی وجوہات:*
بلوچستان کے نازک حالات اور تعلیم میں پیچھے رہ جانے کی کئی بنیادی وجوہات ہیں، جن میں سماجی، معاشی، اور سیاسی عوامل شامل ہیں۔ ان وجوہات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بھی اہم ہے کہ ایک استاد ان چیلنجز سے کیسے نمٹ سکتا ہے اور تعلیم کو فروغ دینے میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔

1. سکیورٹی اور امن و امان کی صورتحال:
بلوچستان میں جاری بدامنی اور تنازعات نے تعلیمی شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ دہشت گردی، قبائلی تنازعات، اور سکیورٹی کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے اسکولوں کو بندش اور عدم تسلسل کا سامنا رہتا ہے۔ اساتذہ اور طلبہ کو بھی خطرات کا سامنا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے تعلیم کا عمل متاثر ہوتا ہے۔

2. تعلیمی انفراسٹرکچر کی کمی:
بلوچستان کے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں اسکولوں کی کمی، عمارتوں کی خستہ حالی اور بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی جیسے کہ پانی، بجلی اور بیت الخلاء نہ ہونا، تعلیمی ترقی میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ بہت سے اسکولوں میں اساتذہ کی کمی اور ناقص تربیت بھی ایک مسئلہ ہے۔

3. غربت اور معاشی مسائل:
بلوچستان میں غربت کی شرح زیادہ ہے، جس کی وجہ سے بچوں کو مزدوری پر لگا دیا جاتا ہے تاکہ وہ گھر کی مالی مدد کر سکیں۔ یہ معاشی دباؤ بچوں کے اسکول چھوڑنے اور تعلیمی عمل سے دور ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

4. سماجی اور ثقافتی رکاوٹیں:
بلوچستان کے کچھ علاقوں میں تعلیم، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کو ثقافتی اور روایتی طور پر کم ترجیح دی جاتی ہے۔ روایات، مذہبی اور قبائلی سوچ کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو خاص طور پر لڑکیوں کو اسکول بھیجنے سے ہچکچاتے ہیں۔

5. حکومتی عدم توجہ:
بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی کی ایک وجہ حکومت کی طرف سے ناکافی وسائل اور بجٹ کا مختص ہونا بھی ہے۔ تعلیمی نظام کو جدید بنانے کے لیے ضروری حکومتی پالیسیوں اور فنڈنگ کی کمی ایک مستقل مسئلہ ہے۔

 

ایک استاد کا کردار اور عوامل:

1. مقامی کمیونٹی کے ساتھ تعلقات بنانا:
ایک استاد کو مقامی لوگوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے چاہئیں تاکہ وہ تعلیمی اہمیت کو سمجھا سکیں اور ثقافتی رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد کر سکیں۔ استاد کو والدین کو قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کی تعلیم طویل المدتی معاشی اور سماجی فوائد فراہم کرے گی۔

2. تعلیم کے لیے لچکدار طریقے اپنانا:
بلوچستان کے علاقوں میں اساتذہ کو لچکدار تدریسی طریقے اپنانے کی ضرورت ہے، تاکہ بچوں کو مختلف پس منظر اور حالات کے مطابق تعلیم فراہم کی جا سکے۔ بچوں کو دلچسپی کے ساتھ سیکھنے کے مواقع فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ تعلیم سے جڑے رہیں۔

3. طلبہ کی ضروریات کو مدنظر رکھنا:
اساتذہ کو بچوں کی انفرادی ضروریات اور تعلیمی سطح کو سمجھنا چاہیے اور انہیں مناسب رہنمائی فراہم کرنی چاہیے۔ طلباء کی خود اعتمادی کو بڑھانے کے لیے ان کی ترقی اور صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے۔

4. بنیادی تعلیم پر توجہ دینا:
استاد کو بنیادی تعلیم جیسے کہ پڑھنا، لکھنا، اور حساب سکھانے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ بچوں کی ابتدائی تعلیم میں مضبوط بنیاد رکھی جا سکے، جس سے وہ آگے کی تعلیم میں بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔

5. جدید تدریسی تکنیک اور ٹیکنالوجی کا استعمال:
اساتذہ کو نئی تدریسی تکنیکوں اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ تعلیمی عمل کو مزید دلچسپ اور مؤثر بنایا جا سکے۔ اس سے بچوں کو نہ صرف جدید تعلیم ملے گی بلکہ ان کی سیکھنے کی صلاحیتیں بھی بہتر ہوں گی۔

6. خواتین کی تعلیم پر زور:
استاد کو خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر زور دینا چاہیے اور والدین کو اس کی اہمیت سے آگاہ کرنا چاہیے، کیونکہ بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔ استاد کا مقصد لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے رکاوٹوں کو دور کرنا اور ان کی شرکت کو بڑھانا ہونا چاہیے۔

نتیجہ

بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے اساتذہ کا کردار نہایت اہم ہے۔ انہیں نہ صرف تعلیمی نظام کے اندر اصلاحات میں مدد کرنی چاہیے بلکہ مقامی برادری اور طلبہ کے ساتھ فعال طور پر کام کرنا چاہیے تاکہ تعلیم کو ہر بچے کے لیے قابل رسائی اور دلچسپ بنایا جا سکے۔ اساتذہ کا تعاون، تربیت اور سماجی شعور ہی بلوچستان میں تعلیمی ترقی کا ایک مضبوط ستون بن سکتا ہے۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *