گزشتہ دنوں اُن کی ایک نگارش بعنوان “علمی آزادی نہ ہو تو ذہن بنجر ہوجاتاہے” کے عنوان سے پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں اس حوالہ سے انہوں نے ماضی میں علم و ادب، چرچ کی سرپرستی، یونیورسٹی کے قیام، فلسفہ اور نئے خیالات و افکار کے ساتھ ساتھ علمی آزادی اور پابندیوں پر تفصیلی بحث کی تھی ، اُن کے مطابق جب عالموں اور دانشوروں کو یونیورسٹیوں میں علمی آزادی نہیں ملی تو انہوں نے پبلک لکچرز کا سلسلہ شروع کیا۔
ابلاغ کے دیگر ذرائع استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو علم و ادب کی طرف متوجہ کرانے کی کوشش کی، تحقیقی جرائد شائع کرنا شروع کئیے۔ مختلف موضوعات پر کانفرنسوں کا انعقاد کیا، جس میں علمی و ادبی آزادی کو فروغ ملا، ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ، روس، جو ایک نظریاتی ریاست تھی۔ وہاں بھی علمی آزادی پر پابندیاں تھیں۔ اور چین میں بھی۔ اُن کے مطابق پاکستان جو ایک نظریاتی ملک ہے۔ یہاں بھی علمی آزادی پر ایک جانب ریاست کی پابندیاں ہیں تو دوسری جانب معاشرہ بھی علمی آزادی پر سخت گرفت رکھتا ہے۔ جب حالات ایسے ہوں تو ہر نہ تو پرانی روایات کو چلیج کیا جاسکتا ہے اور نہ اُن کی جگہ تازہ افکار کو پیش کیا جاسکتاہے اور جب کسی معاشرہ میں علمی آزادی کا خاتمہ ہو جائے تو ذہنی پسماندگی بڑھ جاتی ہے۔ اور ترقی کے تمام راستے بند ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر مبارک علی کو پڑھتے ہوئے مجھے کچھ عرصہ پہلے کیچ میں علمی ادبی اور تاریخی کتابوں پر پابندیوں کا دور یاد آیا، جہاں بُک اسٹالوں اور کتابوں کی دکانوں پر چھاپے پڑے لوگوں کو پابندسلاسل کیاگیا۔ ادیب اور دانشور اتنے لاچار ہوئے کہ انہوں نے اپنی کتابوں کو زمین میں دفنادیا تاکہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوجائیں۔ یہ سلسلہ کسی نہ کسی حوالے سے چلتا رہاں اور حال ہی میں جب بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے اپنی کتاب کاروان کی روایت کو بر قرار رکھتے ہوئے بلوچستان کے مختلف شہروں میں بُک اسٹال لگائے تو حکومتی ہھتکںڈے بھی حرکت آئے۔ اور انہیں حرساں کرنے کے ساتھ ساتھ کتب کو زمین پر بکھیرتے ہوئے انہیں دھمکیاں دی گئیں۔ یہاں تک کہ گوادر میں طالب علموں کو اُن کی کتابوں کے ساتھ پابندسلال کیا گیا۔ بعد میں طالب علموں کو ضمانت پر رہائی ملی، جی ہاں یہی کتابیں کراچی اور لاہور کی کتابوں کی دکانوں میں بک رہی ہوتی ہیں۔ لیکن یہاں بلوچستان میں کتابوں پر قدغن یہی بتاتا ہے کہ یہاں علمی آزادی سے ڈرنے والے کچھ زیادہ غیریقینی صورت حال سے دوچار ہیں۔ یہاں ایک عجیب بات ہے کہ گوادر کتب میلہ میں یہی کتابیں بلا روک ٹوک فروخت ہورہی ہوتی ہیں۔ جہاں کراچی اور لاہور کے صحافی، ادیب اور شعراء کو خصوصی طور پر مدعو کیا جاتا ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
اسی تناظر میں معروف دانشور اور صحافی ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کتاب اور دہشت گردی کے عنوان سے تفصیلی مقالہ لکھتے ہوئے علمی آزادی، ابلاغ کا ارتقاء صنعتی انقلات، خیالات کی بیخ کنی ، کتابوں اور نظریات پرپابندی کے حوالے سے بحث کی ہے۔ اُن کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو وہ تمام سیاہ قوانین جو ہندوستان میں نافذ تھے۔ وہ پاکستان میں بھی نافذ ہوئے۔ ان قوانین میں آزادی، صحافت شامل تھے۔ انہوں نے دیگر باتوں کے علاوہ، یہ بھی لکھا ہے کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں طلبا و طالبات کی کتابوں میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ گوادر سمیت چھوٹے شہروں میں بھی باقاعدہ کتب میلے منعقد کئیے جاتے ہیں اور ان میلوں میں لاکھوں کی کتابیں فروخت کی جاتی ہیں۔ بلوچستان کے نوجوان مارکس، لینن، اینگل، چی گویرا کی کتابوں کے علاوہ ترقی پسند مصنفین سبط حسن، ڈاکٹر مبارک علی، علی عباس جلالپوری اور بلوچی ادب کی کتابوں کو شوق سے پڑھتے ہیں۔ معروف صحافی عزیز سنگھور نے لکھا کہ گوادر اور اطراف کے علاقوں میں منشیات کے اڈوں پر تو کوئی پابندی نہیں، لیکن کتابوں پر پابندی ضرور ہے۔ اِس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ بلوچستان کو Dark Ages کی طرف دھکیلا جارہاہے اور اب تو کتابی دہشت گردی کے اصلاح بھی استعمال ہورہی ہے جس معاشرے میں کتابوں پر پابندی لگ جائے، اُس کی قسمت میں زوال پزیر ہونے کے علاوہ کچھ نہیں لکھا ہوتا۔
ابھی حال ہی میں ایک ایسی خبر پر نظر پڑی جس میں بلوچی زبان کے معروف ادیب، شاعر اور فکشن نویس اصغر زہیر نے ذمینی حقائق اور ناگُفتہ بہہ حالات کو مدنظر رکھتے ہو، سارتر، احمد فراز، شہید پروفیسر صبادشتاری، محمد حنیف اور چند دیگر ادیب، دانشور اور شعراء کی ایوارڈ نہ لینے اور ایوارڈ کو واپس کرنے کی روایت پر عمل کرتے ہوئے گورنمنٹ آف بلوچستان کے کلچر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے علامہ اقبال صوبائی ادبی ایوارڈ جو اُن کے افسانوعی مجموع کو دیاگیا تھا، اُسے لینے سے معذرت کی ہے۔۔!
کہا جاتا ہے کہ جب ادیب، دانشور اور شاعر اپنے منصب کی پاسداری، اور اہمیت کو نظرانداز کرتے ہوئے چھوٹی سی مشہوری چھوٹی سی مالی کُمک کے لئے اپنی ضمیر کو سُلانے میں عافیت جانے، تب علم، روشنی، حق اور سچائی کی راہیں محدود ہوجایا کرتی ہیں۔
علم ادب سے متعلق لوگ علم ادب پبلشرز کراچی سے بخوبی واقف ہونگے۔ جس کے توسط سے علم اور آگہی کی روشنی پھیلانے میں بڑی مد ملتی آرہی تھی۔ جہاں علم وادب، تاریخ، فلسفہ، سائنس، پر بنی اردو، انگریزی، بلوچی، براہوئی، اور دیگر زبانوں کی کتابیں شائع اور فروخت کی جاتی تھیں۔ اسی پاداش میں کچھ عرصہ پہلے لالا فہیم فہیم لاپتہ ہوئے اور بعد میں منظرعام پر آئے، اب اسی پبلشرز کے روح ادیب، شاعر چنگیز ساحر کی بھی لاپتہ ہونے کی خبر آگئی ہے۔
جس سے علمی و ادبی حلقوں میں بڑی بے چینی پھیل گئی ہے۔ اور انہوں نے مطالبہ کیاہے کہ انہیں جلد از جلد منظرعام پر لایا جائے۔
Add comment