موجودہ سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کےبحران نے پوری دنیا کو سیاسی و معاشی طور پر ہلا کر  رکھ دیا ہے۔ حکمران اپنی طاقت کے زور پر محکوموں کی آوازیں چھین رہے ہیں،  آنکھیں نوچ رہے ہیں، ظلم وستم کا بازار گرم کر رہے ہیں،  عورتوں کو اپنی حوس کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ غریب اور کمزوروں کی زمینوں پر قبضہ جمایا جارہا ہے. اُن پر دنیا کے بدترین ظلم و جبر کے پہاڑ توڑےجا رہے ہیں مگر انہیں حکمران طبقات کی بنائے ہوئے ظلم و جبر کے قانون کو دفن کرنے کے لیے آج محکوم طبقات بھی بڑے ہی جزبے کے ساتھ میدان میں اُترتے نظر آرہے ہیں۔

ایک وہ دور تھا جہاں سماجی لوگوں کو بنا کسی ڈر و خوف کے تمام تر سماجی ذرائع پیداوار پر مکمل دسترس حاصل تھی، کوئی کسی سے کمتر نہیں تھا تمام لوگ (مرد و عورت، پیر، کماش) برابر کے سماجی حیثیت کے مالک  تھے مگر آہستہ آہستہ کر  کے زمین کے ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دیاگیا  لوگوں کےدلوں میں خوف و ڈر پیدا ہونے لگا، سماج نے قبائلی شکل اختیار کرلی اور قبائلی سرداروں نے اپنی زمینوں اور اپنی لوٹی ہوئی دولت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک بڑی جنگی گروہ (قبائلی فوج) تشکیل دینا شروع کر دیا، جہاں سے لوگوں کے درمیان طبقاتی جنگوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا جو تا حال جاری ہیں۔

عورت جو قدیم اشتراکی معاشروں میں آزاد و خودمختار ہوا کرتی تھی سماج میں اس کی حیثیت مرد کے برابر ہوا کرتی تھی، پِھر جب طبقاتی نابرابری و مردکی اجارہ داری کے ماحول نے سر اٹھانا شروع کر دیا تو عورت بھی اپنی سماجی حیثیت سے دستبردار ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سماجی خداؤں کے خوف تلے دب کر رہ گئی۔ اگر موجودہ طبقاتی نظام کا جائزہ لیاجائے تو ہمیں بہت سارے ایسے ممالک دیکھنے کو ملیں گے جو خود کو امن و امان کے مالک ملک سمجھتے ہیں، جو عالم انسانیت کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جمہوریت، برابری و مساوات ہی امن وعالم کا گہوارہ ہے لہٰذا ہم امن و امان کا دامن تھام کر چلیں، ہمارے ہاں کوئی کسی سے کم تر و برتر نہیں سمجھا جاتا لہٰذا ہم مساوات و برابری کے جھنڈے تلے یکجاء ہو کر جی رہے ہیں۔

مگر درحقیقت موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا کوئی ملک ہی نہیں جو چاروں اطراف سے جمہوریت، برابری و مساوات کے نقشِ قدم پر چل رہا ہو عورت تو دور کی بات موجودہ سرمایہ دارانہ نظام نے تو محکوم مردوں کی بھی کمر توڑ دی ہے بھلا ایسے سماجی نظام کے تحت رہ کر کوئی ملک کیسے عورت کی آزادی ،سماجی مساوات و برابری کا دعویٰ کر سکتا ہے، یہ سب کے سب جھوٹ و فریب ہے اصل سچ تو یہ ہے کہ ان ممالک میں ہر سال نہ جانے کتنی عورتیں ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہیں ، بارہ سے تیرہ سال کی بچیاں زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔

پاکستان تو ان ملکوں کی فہرست میں ٹاپ فائیو پوزیشن پر ہے جہاں 110 مردوں کے مقابلے میں 100 عورتیں ہیں اِسکی وجہ بچپن میں بچیوں کی صحت پر زیادہ  توجہ نہ دینا اور چھوٹی عمر میں شادی اور طبی شعبہ کا زوال اور بحران ہے۔ 100 میں سے صرف 12 فیصد خواتین تعلیم کی راہ پر گامزن ہیں۔ باقی ماندہ عورتیں گھریلو چار دیواریوں میں بند ہو کر بچوں کی نگہداشت یا گھریلو کام کاج میں اپنی ساری زندگی گزار دیتی ہیں، اور یہ 12 فیصد عورتیں جو ملازمت کرتی ہیں تو ملازمت میں بھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے، ان ہی 12 فیصد عورتوں میں سے  6 فیصد عورتیں معاشرتی بدکرداری و بدسلوکی کی ڈر سے ملازمت ہی چھوڑ دیتی ہیں۔

عورت کو اس طبقاتی و پدرشاہی سماج نے ہر بنیادی حق و حقوق اور اشیاء صرف (استعمال ہونے والے چیزوں) سے دُور کر کے رکھ دیا ہے، یہاں تک کہ جس گھر میں وہ رہتی ہے وہ گھر بھی اسکا اپنا گھر نہیں ہوتا، کبھی باپ کا گھر، کبھی شوہر کا گھر، تو کبھی بیٹے کا گھر بس آخر میں جو دو گز زمین (قبر) ملتی ہے اُسی کو ہی عورت اپنی ذاتی ملکیت سمجھتی ہے مگر پھر بھی یہ سماجی ظالم اور جابر، عورت سے یہ حق بھی چھین لیتے ہیں۔ اسی قبر کے تختے پر اسکے والد یا شوہر کا نام ضرور لکھا ہوا ملتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ عورت اس دنیا میں محض کسی کی ذاتی ملکیت ہے اس کی کوئی اپنی ذاتی زندگی نہیں ہے۔ زمینی خداؤں کے مکروہ عزائم تو دیکھئیے کہ مرنے کے بعد بھی یہ سماجی خدا عورت کو اپنا جاگیر سمجھتے ہیں۔

عورت کے سماجی کردار پربعداز اشتراکی نظام کے اگر جائزہ لیا جائے تو قدیم معاشروں میں عورت کو گھٹیا سمجھا جاتا تھا ، حتیٰ کے اُسے چڑیل و نجانے کن ناموں سے پکارا جاتا تھا، مگر یہ بات بھی درست ہے کہ مرد عورت کو اپنی جھوٹی محبت کے جال میں پھنسا کر عورت کی نفسیات کو بھگاڑ دیتا ہے۔ عورت کو ہر نظر میں بُرا سمجھا جاتا ہے، عورتوں کے حوالے سے قدیم دور کے مفکروں کے دقیانوسی خیالات تو دیکھئیے کہ ارسطوکہتا تھا کہ عورت کی پیدائش نامکمل ہے اس لئے وہ ناقص العقل اور ادھوری ہے۔ اور شیکسپیئر کہتا تھا کہ عورت کمزور ہے۔ افلاطون تو باقاعدہ شکر ادا کرتا ہے کہ قدرت نے مجھے عورت پیدا نہیں کیا۔ اور رُوسو بھی کہتے تھے کہ عورت مرد کی غلامی کرے اور مزید پلوٹارک کہتا ہے کہ عورت کو اپنے ساتھ کھانا کھلاؤ ورنہ وہ اکیلے میں بہت کھالے گی۔

عرب تو عورت کو صرف بچے جننے کی مشین ہی تصور کرتے تھے وہ کہا کرتے تھے کہ عورت وہ ہے جو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرے۔ اور عیسائیت تو اس سے بھی بڑھ کر تنگ نظر نفسیاتی ابہام پھیلا کر کہتا ہے کہ عورت کو ہر قسم کے مجلس سے دُور رکھاجائے ورنہ وہ آزاد خیال ہوگی جو کہ بے حیائی ہے۔ موجودہ طبقاتی سماج تو عورت کو ایک سیکس مشین ہی تصور کرتا ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

باقی ماندہ مفکروں کے دقیانوسی خیالات و تصورات اپنی جگہ ایک بلوچ مصنف نے یہ تک اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ” عورت کو ہم اس لئے معاشرے میں اکیلی گھومنے پھرنے نہیں چھوڑتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ خراب ہے، اور معاشرے میں چرسی و شرابی عورت کو حقیر نظروں سے دیکھ کر اسے تنگ و رسواء کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ “یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ معاشرہ تنگ نظر نفسیات کے گھیرے میں دھنس گیا ہے اور معاشرے میں چرسی و شرابی نجانے عورت کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں۔ کیا عورتیں اسی بدبودار معاشرتی نظام کے ڈر سے باہر نہ نکلیں کہ کہیں ہم ان معاشرتی بھیڑیوں کے شکار  نہ ہو جائیں، اگر یہ معاشرہ خراب ہے تو اسی معاشرے کو بہتر بنانے والے بھی تو عورتیں ہیں، اگر یہ بدبودار سماج عورت کے حوالے سے تنگ نظر سوچ رکھتا ہے اور اسی تنگ نظر نفسیات کے کارن عورت کے وجود کو معاشرے میں خطرات لاحق ہو رہے ہیں تو ضروری امر یہ ہے کہ عورتوں کو گھروں سے باہر نکل کر اس سماجی نفسیات کا مقابلہ کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر شکست دے کر ختم کرنے کاآزادانہ موقع فراہم کیاجائے، اور سماج میں اپنی وجودیت کے جوہرکوپنپنے کاماحول فراہم کیاجائے۔

اس حوالے سے کامریڈ ٹراٹسکی بڑای اہم بات کہتا ہے کہ۔ “حالاتِ زندگی کو بدلنے کے لیے لازم ہے کہ ہم انہیں چشمہ زن یعنی عورت کی نظر سے دیکھنا سیکھیں۔یہ مارکسی روایت میں اعلیٰ اظہار ہے۔

تاریخ میں عورت کو سماج نے بہت سارے ناموں سے نوازا ہے جیسے کہ منحوس، چڑیل وغیرہ اگر مرد کے کاروبار میں نقصان ہو جائے تو سماج یہی کہتا ہے کہ اسکی عورت منحوس ہے اسی لئے گھر میں تنگدستی ہے۔عورت بدکرداد ہے،  عورت بدسلوک ہے، عورت بےکار ہے اور پتا نہیں عورت کے خلاف کیسے کیسے منفی خیالات گھڑتے رہتے ہیں۔

قدیم یونانی تاریخ کو اگر ہم اُٹھا کر دیکھیں تو ہمیں عورت کچھ یوں ملتی ہے کہ اگر عورت شادی کرکے شوہر کے گھر جاتی ہے تو اُسے اپنے گھر کے سارے رشتے ناتے ختم کرنے پڑتے تھے، اور اگر شوہر مر جائے تو عورت کو اپنے بل بوتے پر اپنے بچوں کی زندگی کو سنوارنا ہوتا تھا یعنی مرد کے جائیداد سے اُسے کوئی حصہ نہیں ملتا تھا۔ ہندومت میں جب عورت کا شوہر مرتا تھا تو عورت کو بھی مرد کے ساتھ زندہ جلایا جاتا تھا(جس کی رسم کو”سَتی”کہتے ہیں) اور زندہ جلانے سے قبل عورت کو گنجا کر کے اُس معصوم ہستی کو آگ کے سپرد کرکے اُسکے وجود کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیتے تھے۔

آج بلوچ عورت کی سماجی حیثیت بھی ان تمام سماجوں کی عورتوں کی سماجی حیثیت سے کئی حد تک ملتی جلتی ہے، آج بلوچ عورتوں پر محض ریاستی جابر زور آور نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اندرونی سماجی طبقاتی جبر بھی استحصال کی جڑ ہے۔ نام نہاد وڈیروں کے جرگوں نے الگ سے عذاب برپا کر رکھے ہیں۔ غیر انسانی فیصلے، نابالغ بچیوں کو ونی کے بھینٹ چڑھانا، عورت کے ذاتی زندگی کے فیصلے کرنا،  زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنا،  ظلم و جبر کانظام قائم کرنا،  اپنی اَنا اور ہوس کی خاطر غریب عورتوں کے ساتھ زیادتی کرنا۔

 جبر ریاستی ہو،  جاگیردارکا ہو،  سردارکاہو یا گھریلو اسے سہنا تو ہم بچاری عورت کو ہی پڑتا ہے۔ آج کچھ قبائلی وڈیروں اور سرداروں کو جب اپنا بستر گرم کرنا ہوتا ہے تو غریب عوام کو اپنے جال میں پھنسا کر انکی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اُن سے اُنکی بیٹیوں کو ایک رات کے لئے جبراً اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، عورت کی زندگی کو اجیرن بنا کر عورت کی زندگی کو ہمیشہ کے لئے جہنم بنا دیتے ہیں۔

بلوچ سماج میں عورتوں کے ساتھ بدسلوکی و سماجی جبر کی داستانیں فقط آج کی نہیں ہیں بلکہ تاریخ سے یہ رواج چلتا آرہا ہے، تاریخی طور پر بھی عورتوں پر یہ جبر ہوتاآیا ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ آج نوآبادیاتی نفسیات نے بلوچ عورت کوغلامی کی زنجیروں میں مضبوطی سے جکڑ کے رکھ دیا ہے مگر عورت کی غلامی کی یہ داستانیں تو نوآبادیاتی نظام سے پہلے کی ہیں جب چاکری عہد میں مہناز جو کہ ایک نڈر اور بہادر شیر زال تھی، اُس پر اُسکے شوہر شہداد نے بدکردادی کاتہمت لگا کر اس پر جبر کے پہاڑ توڑکر  اسے طلاق دے دیا تھا اور پھر مہناز کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے گرم اور جلتے تیل میں اپنا ہاتھ ڈالنے پڑے، یہ بات ثابت کرتا ہے کہ بلوچ سماج میں مادرسری نظام کے زوال اور پدرشاہی سماج کے آغاز نے مردانہ بالادستی کو ہر طرح سے بڑھاوا دیا، اس مردانہ بالادستی کے سامنے عورت محض ایک غلام کی مانند ہے۔

بلوچ تاریخ کو اگر  دیکھا جائے تو ہمیں بہادر عورت حانی کی شکل میں بھی ملتی ہے جو سردار چاکر رند کی جنگی مُشیربھی ہوا کرتی تھی مگر دوسری جانب یہی بہادر حانی بھی سرداری و مردانہ جبر سے نہیں بچ سکی وہ بھی سردار چاکر رند کے بڑے بڑے شاہی محلوں میں ایک قیدی کی طرح زندگی گذارنے پر مجبور کی گئی۔ دوسری جانب گوہر جت ہیں جو سرداری جبر کا شکار ہوئی، گوہر جب اپنے مویشیوں کیلئے چراگاہ تلاش کرنے کیلئے سردار لاشار کے در پر دستک دیتی ہے اور سردار اس کی اس درخواست پرعمل کراتاہے ۔جس پرمیرچاکرسیخ پاہوجاتاہے کہ گوہرنے ہم سے اس کااظہارکیوں نہیں کیا۔اس کے بعدرنداس کے مال مویشیوں کونقصان پہنچاناشروع کردیتے ہیں۔پہلے سے جاری جنگ میں شدت آجاتی ہے اورکُشت وخون کابازارگرم ہوجاتاہے۔ ستم ظریفی تو دیکھئے کہ رند و لاشار کے درمیان تمام تر جنگی ہولناکیوں کا ذمہ دار اسی بدبخت عورت(گوہر جت) کو ٹھہرایا جاتاہے، اسے معاشرے نے اتنا تنگ و رُسواء کیا کہ وہ شِگان کی آگ میں جل کر راکھ ہوگئی۔

اب بھی بلوچ سماج میں جہاں ایک طرف ریاستی جبر اپنی ہولناکیوں کے کارن معصوم عورتوں اور مردوں کو کچل رہی ہے وہیں دوسری جانب مقامی اشرافیہ طبقے کے لوگ بھی عورت کو کچلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ۔حال ہی میں آواران کے علاقے گیشکور میں نجمہ نامی خاتون جو این جی او ٹیچر تھی جسکے ساتھ ظلم اور جبر نے گیشکور کی زمین کو ہلا کر رکھ دیا۔ نُور بخش نامی مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے نے نجمہ بلوچ کو ہراساں کرکے اُسکے ساتھ زیادتی اور اسے قتل کرنے کی دھمکیاں دیں۔ نُور بخش نے نجمہ کو اس کے والد اور بھائی کے قتل کرنے کی بھی دھمکی دے کر اُسے اپنے سامنے آنے کی فرمائش کی نجمہ جو کہ ایک عزت دار اور غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی وہ نُور بخش جیسے سفاک کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے رسی کے پھندے کو بوسہ دے کر اپنے گلے میں ڈال کر ہمیشہ کیلئے اس بوسیدہ، بدبودار اور ظالم سماج سے آزاد ہو گئی۔

حالیہ ادوارمیں  عورتوں کی خودکشی کی وجہ یہی سماجی، طبقاتی ظلم اور جبر ہے جو عورت کو جینے نہیں دیتی اور اسی معاشرتی ظلم و جبر سے تنگ آکر عورت خود کو ہمیشہ کے لیے مٹی میں دفن کر دیتی ہے۔ عورت جو ہر زمانے میں ظلم و جبر کا شکار بنتی رہی ہے جسے روایتوں کی آڑ میں قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے، اِس کو لاعلم رکھ کر اُسکی معصومیت کو استحصالی معاشروں نے اپنے بھیانک عزائم کی تکمیل کے لیے ایک پروڈکٹ بنا دیاہے۔

اگر عورت کو اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہے تو اُسے ایک ایسے نظام کی کھوج کرنی ہوگی جو نہ صرف صنفی امتیاز سے پاک معاشرہ ہو بلکہ عورت کو ایک آزاد انسان سمجھتے ہوئے اِسکو معاشرے میں اُسی طرح آزاد اور خودمختاری سے زندگی گزارنے کی اجازت دے جیسے کہ ایک آزاد مرد کو ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں عورت کبھی بھی اپنی ذات کی بلندی حاصل نہیں کر سکتی اور نہ ہی استحصال سے بچ سکتی ہے،لہٰذاآج سے محکوم عورتیں طبقات سے پاک معاشرتی نظام کی کھوج شروع کردیں۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *