دنیا کے سیاسی و سماجی افق پر جب ظلم کے بادل گہرے ہوتے ہیں، تو انہی اندھیروں میں کچھ روشن چہرے ابھرتے ہیں جو اپنے اصولوں اور سچائی کی طاقت سے جبر کے نظام کو چیلنج کرتے ہیں۔ 2025ء کا نوبل امن انعام اسی مزاحمت کی علامت کے طور پر وینیزویلا کی بہادر خاتون ماریا مچادو کے نام ہوا۔ مگر اس اعلان کے ساتھ ہی دنیا کی نظریں ایک اور مظلوم سرزمین بلوچستان پر بھی مرکوز ہوئیں، جہاں ڈاکٹر مہرنگ بلوچ اس انعام کی نامزدگی میں شامل تھیں۔ اگرچہ انعام مچادو کو ملا مگر مزاحمت اور انسانی وقار کی جنگ میں مہرنگ بلوچ کا نام ایک زندہ استعارہ بن چکا ہے۔

ماریا مچادو کی جدوجہد کسی ایک شخص یا جماعت کے خلاف نہیں تھی، بلکہ اس نظام کے خلاف تھی جو اختلاف کو جرم سمجھتا ہے، اور سچ بولنے والوں کو غدار قرار دیتا ہے۔

وینیزویلا کے سیاسی بحران، انسانی حقوق کی پامالی، اور ریاستی جبر کے ماحول میں مچادو نے وہ کردار ادا کیا جو شاید تاریخ میں کم ہی خواتین نے ادا کیا ہو ان کی جدوجہد اس نظریے کا عملی اظہار ہے کہ امن صرف خاموشی یا استحکام کا نام نہیں، بلکہ وہ عمل ہے جو انصاف کے بغیر ممکن نہیں۔

نوبل کمیٹی نے دراصل مچادو کو ان کے نڈر سیاسی موقف، انسانی حقوق کی وکالت، اور آمریت کے خلاف ان کی اخلاقی ثابت قدمی کے اعتراف میں منتخب کیا۔ ان کی شخصیت یہ پیغام دیتی ہے کہ جبر کے خلاف سب سے مؤثر ہتھیار بندوق نہیں، بلکہ سچ بولنے کا حوصلہ ہے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی نامزدگی نوبل امن انعام کی دوڑ میں اس حقیقت کا اعتراف تھی کہ انسانی حقوق کی جدوجہد کسی سرحد، رنگ یا مذہب کی پابند نہیں، مہرنگ بلوچ کی جدوجہد ایک ایسے خطے میں ابھری جہاں دہائیوں سے جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، اور ریاستی تشدد معمول بن چکے ہیں۔ انہوں نے خاموشیوں کے اس طویل سلسلے کو توڑنے کی ہمت کی۔

ان کی مزاحمت بندوق کے ذریعے نہیں بلکہ شعور، سیاست اور انسانیت کے ذریعے ہے ۔ وہ بلوچ خواتین کے لئے نئی علامت ہیں، جنہوں نے ظلم کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ عالمی ضمیر کو بھی جھنجھوڑا۔

نوبل کمیٹی نے چاہے انہیں انعام نہ دیا ہو، مگر ان کا نام اس عالمی اخلاقی فہرست میں شامل ہو چکا ہے جہاں اصول، سچ اور قربانی انعامات سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ مہرنگ بلوچ کی جدوجہد نے یہ واضح کیا کہ امن اُن معاشروں میں ممکن نہیں جہاں انصاف دفن ہو چکا ہو وہ بتاتی ہیں کہ مزاحمت کا مطلب نفرت نہیں، بلکہ محبت، وقار اور آزادی کے لئے جدوجہد ہے۔

ماریا مچادو اور مہرنگ بلوچ دو مختلف براعظموں سے تعلق رکھنے والی دو خواتین ایک ہی پیغام دیتی ہیں کہ امن محض سیاسی معاہدوں یا طاقت کے توازن سے پیدا نہیں ہوتا، بلکہ اس کی بنیاد سچ، انصاف اور انسانی وقار پر ہوتی ہے۔

یہ دونوں خواتین دنیا کو یاد دلاتی ہیں کہ عورت کی آواز جب سچائی کے ساتھ بلند ہوتی ہے تو وہ بندوقوں کی گھن گرج سے زیادہ طاقتور ثابت ہوتی ہے۔

نوبل امن انعام یقیناً ایک بڑی عالمی پہچان ہے، مگر حقیقی انعام وہ عزت ہے جو عوام کے دلوں میں بستی ہے۔

ماریا مچادو نے وینیزویلا کے عوام کو امید دی، اور ڈاکٹر مہرنگ بلوچ نے بلوچ قوم کو یہ یقین دلایا کہ مزاحمت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
وقت گزر جائے گا، نام بدل جائیں گے، مگر تاریخ ان دونوں عورتوں کو ایک ہی باب میں لکھے گی ، سچائی، وقار اور انسانی آزادی کی داستان کے باب میں۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *