ایک تصویر ہزار کہانیاں سناتی ہے۔ کراچی کے حالیہ احتجاج میں ایک ایسی ہی تصویر قید ہوئی جس نے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ماری پور کی مرکزی شاہراہ پر ایک ضعیف ماں، جھکی ہوئی کمر اور ہاتھ میں لکڑی کی چھڑی کے ساتھ پولیس اہلکاروں کے سامنے کھڑی ہے۔ اس کے چہرے پر وقت کی تھکن اور دکھ کی لکیریں صاف نظر آتی ہیں، مگر آنکھوں میں وہ چمک بھی موجود ہے جو اپنے لاپتہ بیٹے کو واپس دیکھنے کی امید سے جڑی ہوئی ہے۔
یہ تصویر دراصل صرف ایک ماں کی نہیں بلکہ ان درجنوں خاندانوں کی نمائندگی کرتی ہے جو اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں۔ کراچی جیسے مصروف اور شور شرابے سے بھرے شہر میں جب مائیں اور بہنیں اپنے بچوں اور بھائیوں کی تصاویر اٹھائے نعرے لگاتی ہیں تو یہ احتجاج صرف مظاہرین کا نہیں رہتا بلکہ پورے سماج کے ضمیر پر دستک بن جاتا ہے۔
پیر کے روز ماری پور کے علاقے سنگھور پاڑہ سے ایک ریلی نکلی جس کی قیادت خواتین اور بچوں نے کی۔ یہ ریلی جب “سائیکل چوک” پر پہنچی تو ایک دھرنے کی شکل اختیار کر گئی۔ مرکزی شاہراہ پر بیٹھے مظاہرین مسلسل نعرے بلند کر رہے تھے: “ہمارے پیارے واپس کرو”… “جبری گمشدگیاں بند کرو”… “انصاف چاہیے”۔ تین گھنٹے تک جاری رہنے والے اس دھرنے نے پورے علاقے کے ٹریفک نظام کو مفلوج کر دیا۔ مگر مظاہرین کے نزدیک گاڑیوں کی قطاریں یا شہریوں کی پریشانی نہیں بلکہ اپنے پیاروں کی بازیابی سب سے بڑی ترجیح تھی۔
یہ احتجاج کیوں ہورہا تھا؟ اس کا مقصد بالکل سیدھا اور صاف تھا: لاپتہ افراد کی بازیابی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگر ان کے عزیز کسی جرم میں ملوث ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ آئین اور قانون کے مطابق ہر شہری کو شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے۔ مگر انہیں یوں گھروں اور گلیوں سے غائب کر دینا صرف ایک خاندان کے ساتھ نہیں بلکہ پورے معاشرے کے ساتھ ناانصافی ہے۔
احتجاج کے دوران کئی دل دہلا دینے والے بیانات سامنے آئے۔ لاپتہ نوجوان شیراز بلوچ اور سیلان بلوچ کی بہن گل سدہ بلوچ نے کہا کہ 23 مئی کو سی ٹی ڈی اہلکاروں نے اچانک چھاپہ مار کر ان کے بھائیوں کو گرفتار کیا، اور اس دن کے بعد سے ان کا کچھ پتہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گھر میں ویرانی چھا گئی ہے، اور خاندان ذہنی و مالی طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
اسی طرح سرفراز بلوچ کی والدہ بی بی گلشن کی آنکھوں سے بہتے آنسو احتجاج میں شریک ہر شخص کو رلا گئے۔ انہوں نے کہا: “اگر میرا بیٹا قصوروار ہے تو عدالت میں پیش کرو۔ یوں چھین لینا سب سے بڑا ظلم ہے۔” یہ جملے صرف ایک ماں کی پکار نہیں بلکہ ہر اس ماں کی زبان ہیں جس کے بچے کو لاپتہ کر دیا گیا ہے۔
زاہد علی بلوچ کے والد حمید بلوچ نے بھی میڈیا کو بتایا کہ ان کے بیٹے کو جولائی میں لیاری سے سادہ لباس اہلکاروں نے اٹھایا اور رکشے سمیت غائب کر دیا۔ وہ کئی پولیس اسٹیشنوں اور سرکاری دفاتر کے چکر لگا چکے ہیں مگر کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہ سوال صرف ان کا نہیں بلکہ ہر اس والد کا ہے جو اپنے لاپتہ بیٹے کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔
یہ احتجاج کہاں ہورہا ہے؟ کراچی جیسے شہر کی اہم ترین شاہراہ پر۔ اور یہی اس احتجاج کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ لوگ اپنے روزگار، معمولات اور شہری سہولتوں کو قربان کر کے سڑکوں پر بیٹھنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے لیے انصاف اور اپنے پیاروں کی بازیابی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ان احتجاجوں کا سلسلہ نیا نہیں۔ بلوچستان سے لے کر کراچی تک جبری گمشدگیوں کے خلاف آوازیں برسوں سے اٹھ رہی ہیں۔ مگر یہ آوازیں جتنی شدت اختیار کرتی جاتی ہیں، اتنی ہی ریاستی اداروں کی خاموشی بھی بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ یہی رویہ عوام اور ریاست کے درمیان خلیج کو گہرا کر رہا ہے۔
کراچی کے اس احتجاج کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں خواتین اور بچے سب سے آگے تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جبری گمشدگیاں صرف فرد کو متاثر نہیں کرتیں بلکہ پورے خاندان کی زندگی کو اجیرن بنا دیتی ہیں۔ بچے اپنے اسکولوں اور کھیل کے میدانوں سے محروم ہو کر سڑکوں پر بینرز اٹھائے کھڑے ہیں۔ یہ منظر ہمارے سماج کی اجتماعی ناکامی کی نشانی ہے۔
ریاست کو یہ سمجھنا ہوگا کہ طاقت اور دباؤ سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ جبری گمشدگیاں نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہیں بلکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی بھی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو احتجاج کراچی سے نکل کر ملک کے ہر کونے میں پھیل جائے گا۔
آخر میں پھر وہی تصویر ذہن میں آتی ہے بوڑھی ماں کی، جس نے اپنی کمزور ٹانگوں کو لکڑی کے سہارے پر کھڑا کر رکھا ہے۔ اس کے سامنے پولیس کی قطار ہے اور پس منظر میں ٹریفک کا شور۔ یہ تصویر ایک سوال ہے جس کا جواب پورا سماج مانگ رہا ہے: “کیا انصاف صرف کتابوں میں لکھا جانے والا لفظ ہے یا یہ ان ماؤں اور بہنوں کا حق بھی ہے جو اپنے پیاروں کی تلاش میں سڑکوں پر کھڑی ہیں؟”
جب تک اس سوال کا جواب نہیں ملتا، تب تک یہ احتجاج اور یہ تصویریں ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑتی رہیں گی۔
Add comment