میری مختصر داستان
میں ذاکر مجید کی ماں ہوں اور میں نے اس کی منگنی کی پوری تیاری کرلی ہے۔ جس دن میرا بیٹا آئے گا میں اسی دن جاؤنگی اس کے لئے دلہن دیکھونگی۔ اس کی منگنی میں جنتی بھی چیزیں ہونگی وہ میں نے تیار کرلی ہیں۔میرے ہاتھوں میں کچھ سونے کی چوڑیاں ہیں جو کہ اس امید سے میں چھوڑی ہیں کہ جس دن ذاکرواپس آئے گا اس کے سر پہ وار کرکے خیرات کردونگی۔
میری مختصر داستان
میں نظر محمد کی ماں ہوں۔ مجھے ایک مولوی نے ایک ایسی تعویز دی ہے کہ مجھے کہا کہ اسے مرغی کے گلے میں باندھ دو اور جس دن تمہارا بیٹا بازیاب ہوجائے اس مرغی کا صدقہ کرو۔میں اب اس مرغی کوصحن میں چلنے کیلئے بھی نہیں چھوڑتی کہ یہ تھک نہ جائے۔میں اس کا خیال رکھتی ہوں کہ یہ مرغی صحت مند بن جائے تاکہ اسے اس دن صدقہ کروں جس دن نظر محمد واپس آجائے۔
میری مختصر داستان
میں سائرہ ہوں ایک ایسی چھوٹی بچی جو گھر سے سکول اور سکول سے گھر تک کا راستہ جانتی تھی لیکن جب میں آٹھویں کلاس میں تھی تو میرے بھائیوں کو غائب کردیاگیا اور اب میں مشکے خضدار اسلام آباد کوئٹہ کیلئے سفر کرتی ہوں۔ آصف اور رشید کی آواز بنتی ہوں۔
میری مختصر داستان
میں سیما ہوں جو چھ سال سے شبیر کو ڈھونڈ رہی ہوں۔ میں نہیں جانتی ہوں کہ اس کی بیوی کو کیا جواب دوں کہ وہ شبیر کی بیوی ہے یا اس کی بیوی۔
میری مختصر داستان
میں معصومہ ہوں میں صرف تین مہینے کی تھی کہ میرے والدکو لے کر گئے آج میں گیارہ سال کی ہوں آج میں تمام احتجاجوں میں شریک ہوتی ہوں کہ شاہد میرا باپ مجھے مل جائے۔ شاہد کسی ظالم کے دل میں میرے لئے رحم پیدا ہو۔
میری مختصر داستان
میں سمی دین ہوں جو انہیں کیمپوں میں دس سال کی بچی سے اب جوان ہوگئی ہوں اب میں دوسروں کی آواز بن گئی ہوں تاکہ کم ازکم ان کے دین محمد ان کو مل جائیں اور وہ میری طرح رلتے نہ رہیں۔
میری مختصر داستان
میں زنیرہ قیوم کہ جس کے والد کو ایک گمنامی کی موت دیدی گئی اوران کے دفنانے کے کئی وقت بعد ایک تصویر کے ذریعے پتہ چلا کہ وہ میرے والد تھے جنہیں ایک نامعلوم اور لادعویٰ لاش کی بنیاد پر دفنا دیا گیا۔ آج میں یونیسیف میں ایک چھوٹی سی عمر میں سفیر بنی ہوں ماحولیات کی۔ لیکن میں اپنی داستان اور تکلیف کسے بتاؤں؟
میری مختصر داستان
میں میرک بلوچ ہوں۔ ایک شہید کا بیٹا۔ میں ہرجمعے کے دن بابا کی قبر پر جاکر ٹھنڈا پانی ڈالتا ہوں کہ جب میرے بابا کو شہید کیاگیاانہوں نے پانی پیا کہ نہیں اور جب ان کے جسم کو چھلنی کیاگیا تھا اس وقت انہیں پیاس لگی ہوگی ضرور لگی ہوگی۔
میری مختصر داستان
میں سعیدہ ہوں جو پچھلے چار سال سے اپنے بھائی اور بھتیجے کو ڈھونڈ رہی ہوں اور میں نہیں جانتی کہ وہ کہاں اور کن حالات میں ہونگے۔
میری مختصرداستان
میں راشدحسین کی ماں ہوں جو ایک بیٹے کو گنوانے کے بعد نہیں جانتی کہ راشد کو کہاں ڈھونڈوں جو نہ جانے کس کال کھوٹڑی میں اذیت سہہ رہا ہے۔
میں ارمان مری کی ماں ہوں جسے خدا نے تو کوئی اولاد نہ دی لیکن کسی نے مہربانی کردی اور اپنا لخت جگر کو میری گود میں ڈال دیا۔ ارمان میرا ارمان ہی بن گیا جو پلا بڑا جوان ہوا جو دن کو جاکر محنت مزدوری کرکے رات میرے پاس آکر سو جاتا تو مجھے لگتا کہ ارمان میری کل کائنات ہے لیکن ظالم رات کے اندھیرے میں اسے بالوں سے پکڑ کر لے گئے اور مچھ واقعہ کے بعد ارمان کی لاش پھینک دی گئی اور مجھ پر جبر کیا گیا کہ میں لکھ کر دوں کہ وہ ایک دہشتگرد تھا ۔ آج میں اس کی قبر کے سرہانے بیٹھی ہوں۔
میری مختصر داستان
میں حسیبہ بلوچ ہوں جس کے ایک بھائی کو شہید کیا گیا اور دوسرے کو عقوبت خانے میں ڈالا گیاکہ جسے میں اور میری ماں اپنے آنسوئوں کی طاقت سے واپس لے کر آئے لیکن آج پھر میرے بھائی اور کزن کو اٹھا لیا گیا ۔ میں آج بھی سراپا احتجاج ہوں ۔
میری مختصر داستان
میں مالک بلوچ سرپرہ کی والدہ ہوں جس کی منگنی کو گیارہ برس گزر گئے اس کی منگیتر آج بھی بیٹھی مالک سرپرہ کی راہ دیکھ رہی ہے جسے بتایا جائے کہ اس کی حیثیت کیا ہے کہ وہ مالک کی بیوی ہے ، منگیتر ہے یا مالک کی بیوہ ہے ؟
میری مختصر داستان
میں راشد احمد سرپرہ کی بھتیجی ہوں میری عمر ڈھائی سال ہے اس کی تصویر میرے ہاتھوں میں ہے کیا ریاست مجھے جواب دے سکتی ہے کہ میں اپنے چچا راشد سرپرہ کو کہاں ڈھونڈوں ؟
میری مختصر داستان
میں سعدیہ بلوچ ہوں۔ سلمان بلوچ کو لے جانے والوں نے نہ وارنٹ دکھایا نہ کسی عدالت میں پیش کیا ۔ میں آج بھی اس کی راہ دیکھ رہی ہوں ۔
میری مختصر داستان
میں سیمک بلوچ ہوں میرے والد شہید فیصل بلوچ کو کراچی میں دن کو ساڑھے آٹھ بجے جسم اور گاڑی سمیت 17 گولیاں ماری گئیں ۔ مارنے والے نے اس وقت تک فائرنگ بند نہیں کی جب تک اسے یقین نہیں ہوا کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ کیا کوئی ہے جو مجھے میری ماں اور بھائی کو یہ بتائے کہ میرے بابا نے کیا قصور کیا تھا کہ انہیں ہیومن رائٹس ڈے کے موقع پر شہید کیا گیا ۔
Add comment