میں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ممکنہ جنگ کے بارے لکھا تھا کہ بھارت اس دفعہ پاکستانی فوج کو سبق سکھائے اور اگر ایسا نہ کیا تو پاکستانی فوج عوام کیلئے قیامت سے زیادہ عذاب بن جائے گی۔ میں نے وہ تمام مظالم کا بھی ذکر کیا جو فوج نے گزشتہ 76 سالوں روا رکھا ہے۔
میری اس پوسٹ کی بہت ساروں نے حمایت بھی کی اور بہت سوں نے تنقید بھی، اور حسب معمول کچھ نے میرے خلاف گندی زبان بھی استعمال کی جن کے بارے سب جانتے ہیں کہ ان کا کس سے تعلق ہوتا ہے۔
جن لوگوں کو فوج کیخلاف میری پوسٹ پسند نہیں ائی وہ یا تو بہت ہی معصوم ہیں یا پھر شتر مرغ کی طرح ریت میں منھ چھپا لیتے ہیں۔ ایسے افراد پاکستان (بشمول سابقہ مشرقی پاکستان) میں فوج کی طرف سے کئے جانے والے مظالم سے کیوں نظریں چرا لیتے ہیں۔ یا پھر شتر مرغ کی کیفیت رکھنے والے افراد فوج کی حمایت کرکے وہ تمام مظالم کو پھر سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جن میں سابقہ مشرقی پاکستان میں عام لوگوں کا وسیع پیمانے پر قتل، تین لاکھ عورتوں بچیوں کی پاکستانی فوجیوں اور ان کے قصیدہ خواہ مذہبی و لسانی گروہوں کی طرف سے آبرو ریزی، بنگالی عوام کی مسلمانیت کا بر سر عام جائزہ لینا، انکی جسمانی ساخت کا تمسخر اڑانا، صحافیوں، اساتذہ، دانشوروں کو قطاروں میں کھڑے کرکے قتل کرنا شامل ہے۔
اس سے قبل 1947 میں پاکستان کے قیام کے چند روز کے بعد ہی کشمیر میں گھس جانا اور سری نگر کے محلے محلے میں اور ہر گلی میں عورتوں کو تلاش کرکے ان کی آبرو ریزی کرنا، مکانات کو لوٹنا سمیت مکمل دہشتگردی کا بازار گرم رکھا تھا۔ حتی کہ مسلمان گھرانوں نے بھی بھآرت حکومت سے مدد طلب کی۔ اسی بنا پر پھر وہاں کے حکمراں ہری سنگھ کی طرف سے مدد کی اپیل پر بھارت کو باقاعدہ سرکاری طور پر مداخلت کرنا پڑی۔ ابھی ملک بنا تھا اور ہم نے جنگ کی پہل کردی تھی جس میں پاکستانیوں سمیت بے حساب مسلمان قتل ہوئے اور زندگی بھر کیلئے معذور ہوگئے۔
پھر بنگالیوں کے ساتھ پاک فوج نے کیسے کیسے ظلم نہیں کئے ماں باپ کے سامنے بچیوں کی عصمتیں لوٹی گئیں، فوجیوں نے بنکروں میں لڑکیوں کو لیجا کر کیا کچھ نہیں کیا۔ بنگالیوں کو ملک پر حکومت کرنے روکنے جیسی مکروہ حرکت میں کامیاب رہے پھر چودہ دن کی جنگ میں شکست کھا کر آدھا ملک حوالے کردیا جس کے نتیجے میں ہم پاکستانی دنیا بھر میں شرمندہ شرمندہ گھومتے رہے۔
مگر عادت سے مجبور فوج نے بچے کچھے پاکستان کو جمہوریت سے مستقل روکنے کیلئے ملک میں گیارہ سال کیلئے مارشل لا لگا کر ملک پر قابض ہوگئے، ان کے منتخب وزیر اعظم کو پھانسی لگادی۔ یہ کارنامہ بھی پاک فوج نے ہی انجام دیا۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے ڈیموکریسی کی بحالی کیلئے چلنے والی تحریک میں دیہاتوں اور چھوٹے شیروں پر بمباری کی گئی اور معصوم لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔
جہاد کو متعارف کرا کر لاکھوں پاکستانیوں کا قتل کرایا، یہی ہماری فوج تھی جس نےپاکستان کے سارے مسلمانوں کی مسلمانیت کو مشکوک بنادیا، مولویوں کو غنڈہ بنادیا جو دندناتے پھرتے ہیں، بلاسفیمی کے نام پر عورتوں اور مردوں و بچوں کو پھانسی و قید کی سزائیں دی گئیں۔ عیسائی و ہندو لڑکیوں کو اپنے پالتو مولویوں اور پیروں کے ذریعے اغوا کرکے ان سے جبری طور مسلمان بنایا جس کے بعد انکو اپنے ماں باپ سے ملنےنہیں دیا گیا، فوج نے آج تک کسی مولوی اور ملوث پیرون کو سزا ہونے نہیں دی۔ ملک میں عام لوگوں اور خاص کر غریبوں کو تعلیم سے محروم کرنے کیلئے اسی فوج اور ان کی مارشل لا حکومتوں نے مدرسوں کا جال بچھا دیا جہاں سے ہر سال ہزاروں جاہل مولوی، پیش امام اور پھٹ جانے والے دہشت گر پیدا کئے جاتے ہیں یوں دنیا کا واحد ملک بن گیا جہاں دہشت گردوں کی فیکٹریاں دن رات چوبیس گھنٹے کرتی ہیں۔
جبری گمشدگیوں کا آغاز بھی مارشلا ادوار میں ہوا، جتنے افراد جبری گمشدگیوں سے بازیاب ہوئے یا عدلیہ نے فوجی تحویل سے ہی بازیاب کروائے ہیں۔ مارشل لا کے دور میں چاروں صوبوں سے ہزاروں افراد لاپتہ کئے گئے۔ سیاسی کارکنوں کو بر سر عام کوڑے لگانے کا اور پھانسیاں دینے کا نظام متعارف کرایا۔
ملک کی معیشت مارشل لا کے ادوار میں تباہی ہوئی مگر ہر صنعت پر قبضہ کرکے ہزاروں کارخانے بند کروائے گئے اور پاکستانی عوام ننگے بھوکے ہوتے گئے۔ ہر کارپوریشن اور اداروں پر حاضر و ریٹائرڈ فوجی افسران متعین ہیں۔
سیکیوریٹی آف پاکستان کے نام پر جہاں چاہیں زمینوں پر قبضہ کرنا، لاکھوں غریبوں کو بے گھر کرنا، اب تو زراعت پر مکمل قبضہ کرکے کروڑوں کسانوں و ہاریوں کو کام چور اور کاہل قرار دیکر پوری زراعت پر قبضہ کرنا ہے تاکہ لوگوں کو خوراک سے محروم کیا جاسکے۔ مرے ہوئے ریگستان میں فوجیوں کو لاکھوں ایکڑ زرعی زمینیں عطیہ کر سندھ کو بنجر بنانے پر مصر ہے تاکہ فوجیوں کی زمینوں کو آباد کیا جاسکے۔ فوج کی نظروں میں سندھ کے سات کروڑ عوام بھوکے پیاسے مرتے ہیں تو ان کی بلا سے مگر فوج کی جو خواہش ہے اسکا پورا ہونا قومی مفاد میں ہے۔
سول حکومتوں کو اجازت نہیں کہ آئین و قانون پر چلے۔ صرف چیف آف آرمی اسٹاف کے احکامات ہی پر سیاست دانوں کو چلنا ہوتا ہے۔ آئین و قانون پر چلنے کی کوشش کرنے والے سیاستدانوں کو اقتدار سے ہٹایا گیا، پھانسی دی گئی، قید و بند کیا، اور کرپٹ قرار دیکر مارشل لا لگاتے رہے۔
اس فوج نے ملک میں چار جنگیں کی ہیں مگر ماشا اللہ سے ایک بھی جنگ نہیں جیتی بلکہ ہتھیار ڈال دیئے حتیٰ کہ پتلونیں بھی دشمن کے حوالے کردیئے۔ میرا سوال ان شتر مرغوں سے ہے کہ کیا وہ اب بھی چاہتے ہیں کہ یہ جنگ کریں ہتھیار اور پتلونیں چھوڑ کر ائیں، عوام کو جنگی جنون میں مبتلا رکھیں، پاکستان کی عورتوں کی فاتحین کی طرح کھلے عام آبرو ریزی ہو، ہر کونے پر فوجی کھڑے ہو کر مسلمانی چیک کریں، لوگ ننگے بھوکے رہیں صرف پاک افواج ژندہ باد کے نعرے لگاتے رہیں۔اور فوج ہماری اگلی کسی جنگ کی تیاری کرے۔ جنگ کے نام پر جنگی جنون پھیلا کر یہ ہم پر پھر سے خالصتاً حاکمیت قائم کرنا چاہتی ہے۔
پاک فوج کو ہمیشہ سے جنگوں کا شوق رہا ہے، ابتدا بھی یہ کرتے ہیں اور پھر عالمی اداروں کی خوشامد کرکے کرواتے ہیں یوں انہیں پاکستانی عوام پر جبر، لا قانونیت، اور کرپشن کے ذریعے ایک طویل عرصے تک حاکمیت کا موقعہ مل جاتا ہے۔ اس مرتبہ بھی ہماری فوج ایسا سنہری موقعہ گنوانا نہیں چاہتی ہے کیونکہ عوامی سطح پر فوج کیخلاف سخت نفرت پھیلی ہوئی ہے اور سیاسی حالات و بحران قابو میں نہیں آرہے ہیں۔
میرا سوال ہے کہ ہمارا اس جنگ سے کیا تعلق؟ مجاہدین کے نام پر دہشت گرد خود پیدا کرتے ہیں، ان کو دہشت گردی کے لئے استعمال کرنا، یہ کس نے کیا؟ پاکستانی عوام نے تو یہ کام نہیں کیا نہ ان سے پوچھ کر دہشت گرد پالے گئے۔ بھارت کی لڑائی پاک فوج سے ہے اس لئے عوام کو جنگ میں شامل نہ کیا جائے۔ شتر مرغ نما دانشور چاہتے ہیں کہ فوج کی ساکھ کو حب الوطنی کے نام پر بحال کیا جائے اور اس کی آڑ میں اپنے ریسورسز کو بڑھایا جائے۔
پاک فوج کو سبق دینے کی بات ہندوستان سے اس لئے کہی گئی کہ ہمیشہ جنگ ہندوستان سے ہی ہوتی ہے امریکہ یا روس بلکہ دیگر پڑوسی افغانستان یا ایران سے نہیں ہوئی۔ یہ بھارت سے ہی جنگ کرتے ہیں کیوں کہ ہم نے بھارت سے آزادی حاصل کی تو عوام کو جنگی جنونی بنانے کیلئے بھارت کو دشمن نمبر ون قرار دیا گیا ہے۔
اگر میرے محلے کے غنڈے اور بدمعاش مخالف محلے بار بار جا کر حملے کریں اور پٹ کر اور لہو لہان ہو کر آجائیں پھر اپنی کھسیاہٹ کو مٹانے کیلئے اپنے ہی محلے کے لوگوں کو مارے، محلے کی عورتوں کو چھیڑیں، ان کے گھروں میں گھس جائیں، چوریاں ڈکیتیاں کریں، پانی و بجلی کی چوری کریں تو ایک وقت آئے گا کہ محلے لوگ مخالف محلے جا کر کہیں گے ان غنڈوں سے جان چھڑائی جنہوں نے ہماری زندگی حرام بنادی ہے
لہٰذہ ہمیں اپنی فوج سے جان چھڑانا بہت ضروری ہے تاکہ ملک غربت، بے روزگاری، بیماری، دہشت گردی، جہالت اور ملٹری ڈکٹیٹر شپ کو ختم کیا جاسکتے ہیں۔
Add comment