رات کے مخملی سائے میں خوشیوں کے دیے جل رہے تھے۔ چھوٹے سے صحن میں مہندی کی خوشبو رچی تھی، گلابی اور نارنجی پھولوں سے سجے ٹرے، قہقہے، گانے اور تالیاں ہر سو بکھری ہوئی تھیں۔

کنزہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہنسی خوشی مہندی کے گیت گارہی تھی۔دلکش لمحوں میں رنگ بھر رہی تھی،سیڑھیوں کے ساتھ کھڑے کچھ محلے دار آہستہ آہستہ آگے بڑھے، گانے سنتے ہی لمحہ بھر کے لیے رُکے، پھر دبے پاؤں واپس لوٹ گئے۔ کسی کے چہرے پر عجیب سا سکوت تھا، جیسے ہوا میں کوئی نامعلوم ویرانی سرایت کر چکی ہو۔

اچانک اسماء دوڑتی ہوئی آئی، اس کے چھوٹے چھوٹے قدم جلدی میں لرز رہے تھے۔ اس نے قریب آ کر کہا

کنزہ! تمہاری امی بلا رہی ہیں، مہمان آئے ہیں۔

کنزہ کے ماتھے پر شکن ابھر آئی۔

مہمانوں کو بھی آج ہی آنا تھا؟ خوشی کے دن میں تھوڑا سکون تو لینے دیتے!وہ غصے میں بڑبڑائی اور اپنی بھابھی اور ماروش کے ساتھ گھر کی طرف چل دی۔

مگر جیسے ہی گھر میں قدم رکھا، فضا میں ایک عجیب سا سکوت تھا۔ سامنے اماں ہجوم کے درمیان کھڑی حیران نظروں سے سب کو دیکھ رہی تھیں۔ صحن، برآمدہ، گلی ہر جگہ لوگوں کا جمِ غفیر تھا۔ کنزہ کی آنکھوں میں سوالات تیرنے لگے۔یہ سب۔۔۔یہ سب کیوں آئے ہیں؟ شادی تو دیور کے گھر ہورہی ہے! اماں کی آواز کپکپانے لگی۔

کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ بس سر جھکائے، آنکھوں میں آنسو لیے، خاموش کھڑے رہے۔

کنزہ نے ایک بار پھر پوچھا، کیا ہوا؟ کوئی کچھ بولتا کیوں نہیں؟۔۔۔۔

تبھی ہجوم میں سے کسی نے ہچکچاتی ہوئی آواز میں کہا،تمہارے گھر کے شاہزادوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔۔۔

وقت جیسے رک گیا ہو۔ ایک لمحے کے لیے کنزہ کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے اردگرد سب کچھ دھندلا گیا ہو، جیسے کسی نے اس کی سماعت چھین لی ہو۔ وہ بے ساختہ ہنس پڑی، جیسے یہ کوئی بیہودہ مذاق ہو۔یہ کیسا مذاق ہے؟ بھلا ایسا ممکن ہے؟ اللہ کی امانت میں خیانت کیسے ہوسکتی ہے؟ آزاد اور مومن آئیں گے، وہ آئیں گے!جب وہ گئے تھے تو ہم نے ان کو اللہ کے سپرد کیا تھا۔انھیں کچھ نہیں ہو سکتا۔

اس کی آواز میں یقین تھا، ایک ایسا یقین جو دل کی گہرائیوں سے اٹھتا ہے۔

کنزہ دیمے قدموں کے ساتھ جائے نماز پر کھڑی ہو گئ اور سجدے میں جاکر جائے نماز تر کر دیا۔مگر حقیقت کا طوفان بہت بے رحم ہوتا ہے۔لوگ چیخ اٹھے،کنزہ! چھوڑو نماز! پہلے ایک نظر دیکھ لو انہیں!کنزہ کے قدم لڑکھڑا گئے، وہ جیسے سکتے میں آ گئی ہو۔ آنکھوں کے سامنے روشنی معدوم ہونے لگی۔ لوگوں کا ہجوم اس کے سامنے تھا، مگر کسی میں ہمت نہیں تھی کہ آگے بڑھ کر اسے سنبھال سکے۔تبھی دروازہ کھلا۔

ابا نے ہجوم کے درمیان کھڑے ہو کر گہری سانس لی۔ آنسو آنکھوں میں ٹھہرے ہوئے تھے، مگر ضبط کی دیوار اب بھی قائم تھی۔ وہ دو لاشوں کی طرف دیکھتے رہے، جیسے انہیں آخری بار اپنی نظروں میں بسانا چاہتے ہوں۔ پھر انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا، جیسے کسی فیصلے پر مہر ثبت کر رہے ہوں ۔اور پھر، ایک ایسا جملہ جو وقت کی زنجیروں کو توڑ دے، جو صدیوں تک یاد رکھا جائے ۔

“یہ میرے بیٹے نہیں ہیں، یہ زمین پر اتری ہوئی دو امانتیں تھیں، جو میں نے آج واپس کر دی ہیں۔ لوگ مجھ سے تعزیت نہ کریں، بلکہ مبارک دیں، کیونکہ میرے گھر کے چراغ بجھے نہیں، شہادت کے سورج بن کر چمک اٹھے ہیں”

یہ سنتے ہی فضا سسکیوں سے گونج اٹھی، مگر ابا کے چہرے پر ایک عجیب سا سکون تھا ۔وہ سکون جو صرف ان کو نصیب ہوتا ہے، جو اپنے جگر کے ٹکڑے اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں، بغیر کسی شکوے کے، بغیر کسی پچھتاوے کے۔

کنزہ نے بمشکل اپنے قدم آگے بڑھائے۔ رش کے باعث کوئی راستہ نہ تھا، مگر وہ جیسے خود کو گھسیٹ کر لے جا رہی تھی۔ آخر وہ اس کمرے کے قریب پہنچی جہاں سفید چادروں میں لپٹی، خون میں بسی لاشیں رکھی تھیں۔آزاد اور مومن۔۔۔ وہی بھائی جو چند روز پہلے ہنسی خوشی بیٹھے چائے پی رہے تھے، جو زندگی کی امنگوں سے بھرے تھے، آج وہ سرد پڑے تھے۔چہرے مسخ ہوچکے تھے، آنکھوں میں گولیاں گھسی ہوئی تھیں، ہاتھوں اور پیروں سے گوشت ادھڑ چکا تھا۔ شلواریں خون میں ڈوبی ہوئی تھیں، قمیص کے بٹن ٹوٹے ہوئے تھے، جیسے کسی درندے نے انہیں بے دردی سے نوچ ڈالا ہو۔

کنزہ نے کانپتے ہاتھوں سے چہرے پر ہاتھ پھیرا، خون کی نمی محسوس کی، اور بمشکل ان کے ماتھے پر ایک بوسہ دیا۔فضا میں صرف آہ و زاری تھی۔ ایک ایسا ماتم جو کبھی ختم نہ ہوگا۔

پھر وہ وقت آیا جب شہداء کو رخصت کیا جانے لگا۔ جنازے کندھوں پر اٹھا لیے گئے، لوگوں کا ہجوم نہ ختم ہونے والا تھا۔ ہر آنکھ اشکبار تھی، ہر دل درد سے بوجھل تھا۔

کنزہ خاموش کھڑی رہی، جیسے زندگی کی ہر حس ختم ہو چکی ہو۔ آج اس کا دل زخمی تھا، مگر آنسو نہیں نکل رہے تھے۔ شاید صبر کی آخری حد یہی ہوتی ہے۔

شہیدوں کو رخصت کر دیا گیا، کنزہ کا چہرہ تر ہو گیا تھا۔اسکی آنکھ کھلی۔گھبراہٹ کی وجہ سے کھڑکی کھولا۔رات کے سائے مانچسٹر کی سڑکوں پر دبے قدموں اتر رہے تھے۔ ہلکی ہلکی بارش نے ہر چیز کو گیلا کر دیا تھا، اسٹریٹ لائٹس کی پیلی روشنی بھیگے فٹ پاتھ پر ایک عجیب سا عکس بنا رہی تھی۔ سڑک کے کنارے واقع ایک پرانی عمارت کی دوسری منزل پر کنزہ کھڑکی کے قریب کھڑی تھی، اس کی نظریں بارش میں بھیگتی سڑک پر جمی ہوئی تھیں، مگر ذہن کہیں اور بھٹک رہا تھا۔

اس کے پیچھے ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ کا مدھم اندھیرا تھا۔ دیوار پر ایک گھڑی، میز پر کچھ کتابیں، اور ایک چائے کا کپ جو کب کا ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ ہر چیز جیسے خاموشی کی چادر اوڑھے بیٹھی تھی۔یہ سب خواب تھا، ہے نا؟اس نے خود سے سوال کیا۔مگر ذہن میں وہ منظر پھر سے تازہ ہونے لگا۔چھوٹا سا صحن، مہندی کی خوشبو، قہقہے، پھر وہ بھیانک خاموشی، چیخ و پکار، اور خون میں ڈوبے چہرے۔۔۔۔۔۔وہ تیزی سے پلٹی اور میز پر پڑے موبائل کو اٹھایا۔ کانپتے ہاتھوں سے اسکرین کو کھولا اور خبریں دیکھنے لگی۔

اس کی انگلیاں بے ترتیب چل رہی تھیں، جیسے کسی ثبوت کی تلاش ہو۔

مانچسٹر میں ایک اور شہادت۔۔۔

یہ ایک معمولی سی خبر تھی، کہیں کونے میں لکھی ہوئی، جیسے کوئی عام واقعہ ہو، جیسے کوئی ایک اور عدد ہو۔ مگر کنزہ کے لیے یہ کوئی عدد نہیں تھا، یہ ایک چیخ تھی جو کسی خبر کی سرخی میں دب کر رہ گئی تھی۔وہ صوفے پر بیٹھ گئی، اس کا سر جھک گیا۔ دل میں ایک عجیب سا بوجھ تھا، جیسے وہ ابھی بھی کسی جنگ کے ملبے میں کھڑی ہو۔

مانچسٹر ہو، غزہ ہو،بلوچستان ہو، یا وہ چھوٹا سا گھر جہاں مہندی کے گیت گائے جا رہے تھے۔۔۔ درد ایک جیسا ہے۔ لوگ بھول جاتے ہیں، مگر وہ مائیں نہیں بھولتیں جنہوں نے اپنے بیٹے دفن کیے۔ وہ بہنیں نہیں بھولتیں جو دروازے پر کھڑی انتظار کرتی رہ گئیں۔۔۔

کھڑکی کے باہر بارش کی بوندیں اب بھی گرتی جا رہی تھیں، جیسے کوئی کہانی دہرا رہی ہوں، جیسے کسی خواب کا ماتم کر رہی ہوں۔۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *