مہر گڑھ جسے تہذیبوں کا امام کہا جاتا ہے، اپنی ہزاروں سالہ تاریخ لئے اپنے قرب و جوار کے ساتھ ساتھ خطے کے کئی دیگر علاقوں میں اپنی تہذیب کے نقوش ثبت کرنے میں یقیناً پیش پیش رہا ہے۔ اور یہ بلوچستان کی وش بھتی ہے کہ تہذیبوں کا یہ امام بلوچستان اس میں موجود ہے۔ اور تحقیق کے دوران تہذیبوں حوالے سے کم وبیش جو چیزیں دریافت ہوتی ہیں اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہی بلوچوں کا ہی مسکن رہا ہوگا۔ اُس وقت کونسی زبان بولی جاتی تھی یہ ابھی تک تاریخ کے پنّوں میں پوشیدہ ہے۔ اور کون سے دیگر لوگ یہاں بود وباش رکھتے تھے، اس حوالے سے تحقیق کے در کُھلے ہوئے ہیں۔ اور یہ خوش آئندہ بات ہے کہ اب ہمارے اپنے تاریخ دان اور محققین اپنی تاریخ اور تہذیب کے حوالے سے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر ڈاکٹر فاروق احمد، ڈاکٹر شاہ محمد، ڈاکٹر حمید بلوچ، ڈاکٹر نصیر دشتی، جس سے یہ امید ہوچکی ہے کہ ماضی کی بات اور مبالغہ آرائیوں کو تحقیق و دلائل سے رد کرکے اپنی تاریخ کے صحیح خد و خال اُجاگر کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ پھر بھی تحقیق کے در کُھلتے جائیں گے۔
بلوچستان اپنے تہذیبی، تاریخی، ثقافتی، معاشرتی، جغرافیائی اور سیاسی حوالے سے ایک الگ پہچان رکھتی ہے ایک وسیع و عریض رقبے پر محیط سرزمین نے ماضی سے لیکر عصرِ حاضر تک کئی ایک نشیب و فراز دیکھے ہیں ۔ ماضی میں بیرونی حملہ آوروں اور دیگر دشمنوں پر نبرد آزما ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ہی قوم اور قبیلوں کے ساتھ کُشت و خون کا بازار بھی گرم رکھا گیا جسکی ایک مثال چاکر و گہرام کی تیس (30) سالہ جنگ و جدل ہے جس نے بلوچوں کی یکجہتی اور طاقت کو کسی حد تک پارہ پارہ کرکے رکھ دیا۔ ایک ایسی قوم جس نے ہندوستان میں ہمایوں کو دوبارہ تخت پر بٹھاتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ بلوچ ایک بہادر اور وفادار قوم ہے اور اپنے قول کا پکّا ہے۔ اگر چاکرو گہرام کی لڑائی نہ ہوتی تو اس کے مثبت اثرات عصرِ حاضر میں بھی دیکھے جاسکتے تھے مگر بدقسمتی سے بلوچوں کی اَنا، اپنے آپ کو برتر ثابت کرنے کی خواہش اور دیگر مثبت اور منفی رویّوں نے وہ کر کے دکھایا جس کی سزا اب ہم بھی بھگت رہے ہیں۔ ہاں یہ ثابت ضرور ہے کہ چاکر و گہرام کی لڑائی اور چپکلش سے جو ادب خاص طور پر شعر و سخن سامنے آئی ہے وہ بلوچی زبان، ادب، تاریخ اور تہذیبی حوالوں سے ایک بیش بہا میراث کے طور پر ہمارے حصّے میں آئی ہے کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ اُس دور کی شاعری میں جو کردار مکالمہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ خود شاعر گُزرے ہیں جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ شاعر اور ہوتے تھے اور وہ کرداروں کی طرف سے شاعری کے چمن کو سجانے کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے۔ بہرحال اس حوالے سے بھی تحقیق کی کافی گنجائش موجود ہے۔
بلوچستان میں انگریزوں کا زمانہ، ان کے مفادات اُن کی حکمرانی کے طور طریقے، لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی، بلوچستان کے ایک اور قبائل میں تقرقہ ڈالتے ہوئے، انہیں انعام و اکرام سے نوازتے ہوئے اپنی حکمرانی اور من مانیوں کو دوام بخشنے کی ہر ممکن کوشش سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اُس وقت میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جن کا ایمان انعام و اکرام اور ذاتی مفادات کا حصول ہوا کرتا تھا۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتا۔ ہر چیز لکھ کے رکھ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں اور بعد میں جو کچھ ہوتا رہا بلوچ کوڈ اور روایات کی پاسداری کرنے والی شخصیات سُرخ رُو ہوئے۔
اور جنہوں نے اس کے برعکس کام کیا، وہ لوگوں کی نظروں سے گرتے ہوئے نشانِ عبرت بنے۔ بہرحال ان ساری باتوں سے یہ بات سامنے آئی کہ بلوچستان میں فکری، سیاسی، معاشرتی اور سماجی حوالوں سے ایک بیداری کی لہر پیدا ہوئی۔ لوگ سرزمین اور اپنی شناخت کے حوالے سے سنجیدہ ہوگئے۔ بیوسویں صدی کے آتے تھے 1920 کے بعد بیداری کی یہ لہر اور بڑھتی گئی میر یوسف عزیز مگسی، محمد حسین عنقا، آغا عبدالکریم، عبدالعزیز کرد کے ساتھ ساتھ کئی دوسری شخصیات نے عملی اور سیاسی محاز پر لڑھنے کی ٹھان لی۔ یوں بھی انکار اور احتجاج کی جو روایت چلی آ رہی ہے وہ اپنی جگہ موجود تھی۔ بلوچ کانفرنس اور دیگر سیاسی عملی تقریبات کا انعقاد کرتے ہوئے لوگوں میں شعوری فکر اور سیاسی بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اور وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ کارواں چلتا رہا۔ لیکن 1935 کے حولناک زلزلے میں جب میر یوسف عزیز مگسی شہید ہوئے تو یہ سلسلہ وقتی طور پر رُک سا گیا۔ گو کہ ان کے دیگر ساتھیوں نے اپنا یہ مشن کسی نہ کسی طریقے سے جاری رکھا ۔ تاریخی کتب کے مطابق پاکستان بننے پر قلات بلوچستان اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھنا چاہتی تھی۔ جبکہ پاکستان نے اپنی الحاق کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنایا۔ اس کے بعد جو حالات وقوع پزیر ہوتے گئے اسے یہاں تفصیل سے لکھنے کی چنداںضرورت نہیں۔یہاں ہم یہ بتاتے چلیں کہ دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ سیاسی ، عملی اور آگہی کی صورتوں کو اُجاگر کرنے میں طلباء تنظیم جو کہ پہلے ابتداء میں تعلیمی پروگراموں سے متعلق سرگرمیوں میں نظر آتے تھے بعد میں 60کی دھائی میں کراچی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔
انہوں نے تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ فکر اور شعور کی شمعیں جلانے کی طرف توجہ دینا شروع کردی ۔ اور یہ ان کی کوشش یقیناً سنگِ میل کی حیثیت اختیار کرگئی۔ پھر بلوچ کی اَنا، سربراہی کا شوق ، ذاتی و گروہی مفادات اور مداخلت نے اس تنظیم کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کس نے کیا کیا، کون قصور وار رہا ، اور کون مخلص یہ تاریخ کا حصّہ ہیں ۔ اس حوالے سے چند ایک کتب کی اشاعت بھی ہوئی ہے، جو، بی۔ ایس۔ او کی کارکردگی، شکست وریخت کے حوالے سے اچھی جانکاری دے سکتی ہیں۔ ساتھ ہی گِدان ٹی ۔ وی کی اس حوالے سے سیریز سے کافی حد تک سوالات کے جوابات آ چکے ہیں۔ اور آج بھی یہ تنظیم کئی حصّوں میں بھٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ محرکات چاہے کچھ بھی ہوں لیکن اس طرح سے ان کی طاقت اور یکجہتی متاثر ضرور ہوئی ہے جو ایک لمحۂ فکریہ ہے۔!
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے کئی ایک شخصیات پیدا کیں۔جنہوں نے زبان و ادب ، گلزمین اور اپنی تہذیب و ثقافت اور شناخت کے حوالے سے قابلِ قدر خدمات سر انجام دیں ہیں۔ اُن میں سے کئی ایک آج ہمارے درمیان میں موجود نہیں۔ لیکن وہ فکر اور شعور جو انہوں نے دیا معاشرے کی رہنمائی میں پیش پیش ہیں اور کئی ایک آج بھی یہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ اور کئی ایک ایسے بھی ہیں جو مصلحتوں کے چادر اوڑھے ہوئے آرام فرما رہے ہیں۔
شمس الدین شمس بلوچستان کا فرزند ۔ بلوچ طلباء تنظیموں، بی۔ ایس۔او ر کانگریس اسٹوڈنٹس سے منسلک رہے وہاں عہدیدار بھی رہے۔ علم و ادب اور سیاست کے طالب علم بھی رہے، شاعری میں صاحبِ کتاب بھی ہیں۔ ولایت جانے سے پہلے اکثر و بیشتر ملاقات رہی۔ وجہ ہم جانتے تھے کہ وہ ایک ذہین نوجوان ہیں لیکن اب کے ان کی چھپی ہوئی صلاحیتیں ایک ایک کرکے سامنے آ رہی ہیں یہ اب جا کے معلوم ہوا جب انہوں نے بلوچی میں” گدان ٹی۔وی چینل” لاؤنچ کیا اور پروگرام سامنے آتے گئے۔ جہاں علم و ادب کی تاریخ، تہذیب، ثقافت ، سیاست اور زندگی سے متعلق دیگر موضوعات کو سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہیکہ اس حوالے سے کئی ایک نامی گرامی شخصیات سے انٹرویو، اور بوڈ کاسٹ کی صورت بحث، گفتگو کی جاتی ہے اور ایسے لگتا ہے کہ شمس خود بڑی تیاری اور تحقیق کے ساتھ پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ٹیم ورک کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔
آج کل ابلاغ کے حوالے سے سوشل میڈیا ، فیس بُک ، یوٹیوب، ٹوئٹر، اور ایسے ہی ذرائع بہت ہی مؤثر طور پر لوگوں میں مقبول ہیں اور یقیناً روایتی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا لوگوں کی توجہ سے محروم ہیں۔
یوں تو بلوچی میں دیگر پیجز ، یوٹیوب چینل اپنے طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں لیکن” گدان ٹی۔وی ” نے بہت ہی کم عرصے میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جہاں دیگر طبقوں کے ساتھ ساتھ بچوں اور خواتین کے حوالے سے بھی پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ خواتیں سماجی کارکن، شاعرات، فکشن نگار، سیاست دان اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق طلباء و خواتین کی خدمات اور ان کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے گدان ٹی ۔ وی کا اپنا ایک کردار نظر آتا ہے اپنی تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرنے کے لئے فنونِ لطیفہ، موسیقی، شاعری اور تخلیقات کون “visual” کرنے کے لئے ابتداء کی گئی ہے اس حوالے سے “وشبو ئِےملار” کی مثال دی جاسکتی ہے اس سلسلے میں گوادر بلوچستان میں ریکارڈنگ اور دیگر سہولتوں کی دستیابی کے لئے کام اس بات کی غماز ہے کہ گدان ٹی۔ وی نے سنجیدگی کے ساتھ اپنے قدم بڑھائے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اور قابلِ قدر قدم یہ ہے کہ گدان ٹی۔ وی کے توسط سے فنونِ لطیفہ، تہذیب و ثقافت، علم و ادب، سیاست اور معاشرت اور زندگی سے متعلق دیگرموضوعات کو پیج، اخبار کی صورت شائع کرکے محفوظ کیا جاسکے گا۔ اس طرح سے ابلاغ کا مسئلہ بھی کسی حد تک حل ہوجائے گا، جہاں بلوچ، بلوچی اور بلوچستان سے متعلق مضامین، تخلیق تحقیق اور تجزیے بھی شامل ہوا کریں گی۔ اور لوگ یہ جان سکیں گے کہ کلاسیکل وزڈم جو بلوچستان کی مٹی میں رچی بسی ہوتی ہے کیا وہاں صرف درد بھری اور رنجیدہ کہانیاں ہی لکھی جا رہی ہیں یا مہر اور خوشیوں بھری کہانیاں بھی بادِ سمین کے ساتھ سفر کر رہی ہوتی ہیں۔
Add comment