تاریخ ہمیشہ اُن کرداروں کو یاد رکھتی ہے جو اپنی ذات کی حدود سے نکل کر قوم اور انسانیت کی خاطر تکلیفیں برداشت کرتے ہیں۔ یہ کردار کسی ایک قوم یا خطے کے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے ضمیر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بلوچ قوم کی جدوجہد صدیوں پر محیط ہے۔ ایک ایسی جدوجہد جو کسی اقتدار کی نہیں، شناخت، خودداری اور بقاء کی لڑائی ہے۔
بلوچستان، جہاں پہاڑوں کے سائے میں ایک پوری قوم صدیوں سے اپنی شناخت، زمین اور زبان کے تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہے۔ یہاں ہر خاموش چہرہ ایک کہانی ہے، ہر گمشدہ فرد ایک سوال ہے، اور ہر ماں کے آنسو ایک ریاستی تضاد کی گواہی ہیں۔
بلوچ تحریک کے اس حالیہ دور میں، جہاں ریاستی جبر اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے، وہیں بلوچ عورتیں ایک خاموش لیکن مضبوط آواز بن کر ابھری ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہم ماہ جبین بلوچ کا ذکر کرتے ہیں، جنہیں ریاستی ادارے چالیس دنوں سے لاپتہ کیے ہوئے ہیں۔ایک طرف ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ریاست ہے، دوسری طرف ایک پولیو زدہ بلوچ لڑکی۔ ایک طرف طاقت، بندوق، اور ادارے، دوسری طرف کتاب، خواب، اور سوال۔ کیا یہ کسی مہذب ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان کا تعلق ہے؟ نہیں! یہ تو ایک خطرناک تضاد ہے جو صرف بلوچستان ہی نہیں، پاکستان کے اجتماعی شعور کے لیے خطرہ ہے۔
آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، اُن کی ماں دروازے کی طرف نظریں جمائے بیٹھی ہوگی۔ ایک بیٹا شہید، دوسرا ریاستی عقوبت خانوں میں، اور بیٹی کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ کیا کسی ریاست کی ماں کو اس سے زیادہ اذیت دی جا سکتی ہے؟
بسیمہ جیسے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی وہ لڑکی ہے جس نے تعلیم کو اپنی آزادی کا ذریعہ بنایا۔ پولیو کے باعث جسمانی کمزوری کا شکار ہونے کے باوجود، اُنہوں نے ہار نہیں مانی۔ وہ کوئٹہ آئیں، تعلیم حاصل کی، سماجی شعور بیدار کیا، اور بلوچ خواتین کے لیے ایک مثال بنیں۔ریاستی ادارے ماہ جبین کو لاپتہ کر لیتے ہیں۔ وہ گم ہو جاتی ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے سینکڑوں دوسرے بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں، کوئی ایف آئی آر نہیں، کوئی عدالت، کوئی وکیل، کوئی دلیل نہیں۔ بس ایک ماں ہے، جو دن رات دروازے کی طرف دیکھتی ہے۔
ماہ جبین کی گمشدگی صرف ایک فرد کی گمشدگی نہیں، یہ ریاست اور اس کے عوام کے درمیان اعتماد کے رشتے کی گمشدگی ہے۔ نہ صرف انکی ماں، گویا پورا بلوچستان، اپنے بچوں کی راہ تک رہی ہے۔کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جو آوازیں سوال کرتی ہیں، وہ لاپتہ ہو جاتی ہیں؟ کیا یہ کوئی المیہ ہے یا پالیسی؟ کیا تعلیم یافتہ، باشعور بلوچ خواتین ریاست کے لیے واقعی اتنا بڑا خطرہ ہیں کہ انہیں زندہ غائب کرنا ضروری سمجھا جاۓ۔یہ سوال صرف پاکستان کے لیے نہیں، عالمی ضمیر کے لیے بھی ہے۔ اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ — سب کہاں ہیں؟ جب یوکرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو پوری دنیا چیخ اٹھتی ہے، لیکن جب بلوچستان کی ایک معصوم لڑکی پولیو کے ساتھ زندہ غائب کر دی جاتی ہے تو صرف خاموشی رہ جاتی ہے۔
سن زو نے کہا تھا: “دشمن کو اتنا غصہ دلاؤ کہ وہ خود غلطی کرے اور بظاہر ریاست اسی غصے میں فیصلے کر رہی ہے جو اُسے تاریخ کے کٹہرے میں لا کھڑا کرے گا۔
ماہ جبین بلوچ کوئی پہلا نام نہیں۔ تاریخ میں کریمہ بلوچ، زرینہ مری اور درجنوں دیگر نام پہلے سے موجود ہیں جنہیں خاموش کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ صدیوں کی گونج میں بدل گئے۔ آج ماہ جبین اسی گونج کا تسلسل بن رہی ہے۔ وہ لاپتہ ضرور ہیں، لیکن اُن کا وجود بلوچ قومی شعور کا حصہ بن چکا ہے۔
ہم عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں جاری مظالم کا نوٹس لیں۔ جبری گمشدگیاں انسانیت کے خلاف جرم ہیں۔ پاکستان میں ان مظالم کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔
ریاستی طاقت کا استعمال اگر انصاف کی جگہ خوف پھیلانے کے لیے ہوگا، تو پھر تاریخ صرف حکمرانوں کو نہیں بلکہ اُنہیں چپ رہنے والوں کو بھی معاف نہیں کرے گی۔۔ریاست طاقت سے سب کچھ جیت سکتی ہے، سوائے دلوں کے۔ماہ جبین بلوچ کی گمشدگی، ریاستی اداروں کا کردار، اور عالمی اداروں کی خاموشی — یہ سب مل کر ایک “خطرناک تضاد” کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اگر اس تضاد کو اب بھی محسوس نہ کیا گیا، تو پھر صرف بلوچ نہیں، پورا ملک اندھیروں کی گرفت میں چلا جائے گا۔یہ وقت ہے کہ ہم صرف احتجاج نہ کریں، بلکہ سوال کریں۔ کیونکہ اگر آج ماہ جبین کے لیے آواز نہ اٹھائی گئی، تو کل یہ خاموشی سب کو نگل لے گی۔
Add comment