ظلم جب ایک بار نہیں بلکہ مسلسل کیا جائے تو وہ حادثہ نہیں رہتا وہ نظم بن جاتا ہے۔
اور جب کسی قوم کی زندگی ظلم کے اسی نظم کے گرد گزرنے لگے تو وہ ظلم محسوس بھی نہیں ہوتا، صرف برداشت ہوتا رہتا ہے۔ یہی سب سے مہلک ہتھیار ہے سست زہر (Slow Poison)۔ یہ جسم کو نہیں، قوم کے شعور کو مارتا ہے۔ آواز کو خاموش کرتا ہے، ردِعمل کو مفلوج اور انسانیت کو بے بس کر دیتا ہے۔
قابض پنجابی اور ایرانی ریاستیں برسوں سے اسی حکمتِ عملی پر عمل کر رہی ہیں جبری گمشدگیاں، خوف کی فضا، گھر گھر چھاپے، عورتوں کی تذلیل، بچوں کی ہلاکت، اور پھر اس سارے جبر کو معمول بنا دینا۔ جب ظلم روز کا ہو جائے تو ذہن اسے سوال نہیں، روٹین سمجھنے لگتا ہے۔ یہی نوآبادیاتی ذہنیت کی کامیابی ہے۔
لیکن بلوچ سماج ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔
اگر ہم تاریخ کی پرتیں ستر سال پیچھے ہٹائیں تو ہمیں ایک ایسا معاشرہ دکھائی دیتا ہے جس میں حرمت، غیرت اور عورت کا احترام سماجی ڈھانچے کی بنیاد تھا۔
بلوچ روایت میں کسی مرد میں ہمت نہ تھی کہ کسی عورت کی طرف بری نظر ڈالے اور اگر کوئی کرتا تو وہ معاشرے سے کاٹ کر پھینک دیا جاتا تھا، گویا اس کی بلوچیت اس سے چھین لی گئی ہو۔ دو دشمن قبائل کے درمیان خون بہہ رہا ہوتا، مگر ایک عورت سامنے آ جاتی تو تلواریں جھک جاتیں، جنگ رک جاتی۔ بلوچ شناخت میں عورت کی حرمت جنگ سے بڑی تھی۔
مگر آج، آج وہی بلوچ معاشرہ اوزار توڑ کر بے دست و پا کر دیا گیا ہے۔ قابض ریاست اور اس کے کارندے گھروں میں گھستے ہیں، عورتوں کو اٹھاتے ہیں، بچوں کو مارتے ہیں، اور پورے معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی اس کی اجتماعی غیرت کو توڑتے ہیں۔ اور بدترین بات یہ نہیں کہ یہ سب ہو رہا ہے… بدترین بات یہ ہے کہ ہم اسے روز دیکھتے ہیں اور اسے معمول سمجھ کر گزر جاتے ہیں۔
یہی سست زہر ہے جو انسان کو زندہ رکھ کر اس کی روح کو مار دیتا ہے۔ جو قوم کو چلتا رکھ کر اس کے شعور کو ماند کر دیتا ہے۔ جو معاشرے کو سانس لینے دیتا ہے مگر بولنے کا حق چھین لیتا ہے۔ بلوچ قوم کا بحران صرف جسمانی حملہ نہیں یہ شناخت، روایت، اجتماعی احساس اور مزاحمت کی روح پر حملہ ہے۔ یہ ہتھیار بارود سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ جسم نہیں، یقین کو مارتا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ظلم کو معمول سمجھنے سے انکار کریں۔
کیونکہ اگر ظلم معمول بن جائے تو پھر آزادی محض ایک خواب رہ جاتی ہے، اور قومیں خوابوں میں زندہ نہیں رہتیں، وہ تاریخ میں زندہ رہتی ہیں۔


Add comment