اکیس جولائی 2025 کو کراچی کے اردو بازار میں واقع معروف اشاعتی ادارے “علم و ادب” کے ڈائریکٹر چنگیز بلوچ کو دن دیہاڑے مسلح افراد نے اغوا کر لیا۔ یہ واقعہ دوپہر تقریباً 12 بجے پیش آیا جب 10 کے قریب نقاب پوش افراد کتابوں کی دکان پر دھاوا بولتے ہیں، عمارت کی پہلی اور دوسری منزل پر لگے سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیتے ہیں، ان کے ریکارڈ ضائع کرتے ہیں، اور پھر تیسری منزل پر واقع “علم و ادب” کے دفتر میں گھس کر چنگیز بلوچ کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ انہیں نامعلوم مقام منتقل کردیا جاتا ہے۔

یہ واقعہ محض ایک شخص کی جبری گمشدگی نہیں بلکہ ایک منظم ذہنی اور فکری دہشتگردی کا حصہ تھا جو اہلِ علم اور اہلِ قلم کو خاموش کرنے کی کوشش تھی۔ “علم و ادب” کوئی سیاسی تنظیم نہیں بلکہ ایک ثقافتی و ادبی اشاعتی ادارہ ہے جو اردو، بلوچی اور دیگر علاقائی زبانوں میں نایاب اور تحقیقی کتب شائع کرتا ہے۔ یہ ادارہ سن 2016 میں نواز فتح بلوچ نے قائم کیا۔ ایک ایسے انسان نے، جس کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کے علمی روایت رکھنے والے شہر تربت سے ہے۔ ان کی قیادت میں یہ ادارہ فکری ذخائر کو عام قاری تک پہنچانے کا ذریعہ بنا۔

اس ادارے کی تاریخ پہلے بھی ایسے ہی سانحے سے گزر چکی ہے۔ 26 اگست 2022 کو اسی اشاعتی مرکز سے اس وقت کے سابق ڈائریکٹر لالا فہیم بلوچ کو اغوا کیا گیا تھا۔ کئی ماہ لاپتہ رہنے کے بعد وہ تو بازیاب ہوئے، مگر بازیابی کے بعد بھی مسلسل ہراسانی کا سامنا کرنے پر لالا فہیم کو بلوچستان چھوڑ کر بیرونِ ملک پناہ لینا پڑی۔ ان کی رخصتی کے بعد، چنگیز بلوچ کو ادارے کا نیا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔

چنگیز بلوچ کا تعلق ضلع کیچ کے علاقے تمپ سے ہے، اور وہ کراچی میں عارضی طور پر مقیم ہیں۔ ان کی گمشدگی نے علمی، ادبی، صحافتی اور انسانی حقوق کے حلقوں کو لرزا کر رکھ دیا۔

یہ سوال بے سبب نہیں کہ پبلشرز اور اشاعتی ادارے کیوں حکومتی جبر کا شکار ہو رہے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ کتاب ایک ہتھیار ہے، ایک ایسا ہتھیار جو بے آواز ہو کر بھی، پورے نظام کی چولیں ہلا سکتا ہے۔ اشرافیہ کو سب سے زیادہ خوف اسی شعور سے ہوتا ہے جو کتاب انسان میں پیدا کرتی ہے۔ کتاب، فرد کو سیاسی، تاریخی اور فکری شعور سے آشنا کرتی ہے؛ اور وہی شعور، اجتماعیت کو جنم دیتا ہے؛ اور اجتماعیت، تحریک کی صورت اختیار کرتی ہے؛ اور تحریکیں آخرکار انقلاب کا سبب بنتی ہیں۔

لہٰذا، جو اشرافیہ اپنے اقتدار کو استبداد، جبر، دھوکہ اور جھوٹ کی بنیاد پر قائم رکھنا چاہتی ہے، وہ کتابوں سے خوف کھاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمی ادارے نشانہ بن رہے ہیں، پبلشرز اغوا کیے جا رہے ہیں، ادیب خاموش کیے جا رہے ہیں، اور کتابوں کی دکانیں گفٹ شاپس میں تبدیل ہو رہی ہیں۔

ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں کتاب اور بندوق کی جنگ جاری ہے۔ بندوق کے ہاتھ میں طاقت ہے، لیکن کتاب کے ہاتھ میں صداقت ہے۔ طاقت لمحاتی ہوتی ہے، مگر صداقت تاریخ بن جاتی ہے۔ آج چنگیز بلوچ کو اغوا کیا گیا ہے، کل کسی اور ادارے کو بند کیا جائے گا، لیکن یہ تاریخ کا اصول ہے کہ ظلم جتنا بڑھتا ہے، فکر کی آگ اتنی ہی تیزی سے بھڑکتی ہے۔

کتاب اور انسان کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری صرف ریاستی جبر کا نتیجہ نہیں بلکہ ہمارے سماجی انحطاط کی علامت بھی ہے۔ معاشرہ غیرسیاسی، غیرتاریخی اور غیرادبی بنتا جا رہا ہے۔ جب سوچنے والے، لکھنے والے، اور پڑھنے والے لاپتہ کیے جاتے ہیں تو صرف انسان نہیں، ایک مکمل شعور اغوا ہوتا ہے۔ اور جب شعور لاپتہ ہو جائے، تو معاشرے میں صرف زندہ لاشیں باقی رہ جاتی ہیں۔ جو سانس تو لیتی ہیں، مگر سوال نہیں کرتیں۔

چنگیز بلوچ کی گمشدگی ایک فرد کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ ایک فکری، ثقافتی اور سیاسی یلغار ہے جس کے خلاف اجتماعی ردعمل ناگزیر ہے۔ اگر آج ہم نے کتابوں کے تحفظ کے لیے آواز نہ اٹھائی، تو کل ہم اپنے بچوں کو صرف گفٹ شاپس کی چمک دکھا سکیں گے۔

چنگیز بلوچ کی بازیابی صرف ایک فرد کی واپسی نہیں ہو گی، بلکہ یہ کتاب کی جیت ہو گی، اور کتاب ہمیشہ جیتتی ہے اگر اس کے قارئین زندہ رہیں۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *