سال 2006 میں نواب اکبر خان بگٹی جن کا بچپن کانام شہباز خان کا قتل فوجی ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں ہوا۔

بلوچستان میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ سینکڑوں جانیں قربان ہوئیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ نہ صرف گرفتار ہوئے بلکہ مانہیں مختلف مقدامات میں الجھاکرانکی پروفائلنگ ہوتی رہی۔

نتیجہ یہ ہوا کہ جبری گمشدگیوں کی تعداد میں یک دم اضافہ ہوا۔

مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ عام ہوا۔ اٹھائے جانے والوں میں کثیر تعداد تعلیم یافتہ اور باشعور لوگوں کی تھی۔ یہ وہ دورتھا کہ جب لوگوں میں قومی جذبہ عروج پر تھا۔

عورتیں اور بچے بھی سڑکوں پہ نکلے تھے ۔آزادی کے نعرے ہر گلی کوچے میں گونجتے تھے۔متحرک لوگ صبا دشتیاری،ذاکر مجید۔قمبر چاکر،سنگت ثناہ یا پھر ان تحریکوں کو چلانے والے مخلص لوگ اٹھا لیے گئے۔

اسائلم کی آڑ میں سینکڑوں لوگ بیرون ملک منتقل ہو گئے ۔ بہت سے لوگوں کو بہت سی نشستیں ملیں اور جو باقی بچے وہ ریاست کا پلو پکڑ کے بیٹھ گئے۔

یہ وہی لوگ تھے جو نواب مری، اکبر بگٹی کے ساتھ ملکر ان تحریکوں میں سرگرم تھے اور جن کے لیے بلوچ قوم سر قربان کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد اسی طرح مطالبات اور مذاکرات کا سلسلہ چلا اور نشستیں ہاتھ آنے کے بعد سلسلہ رفع دفع کر دیا جاتا رہااور وہ پر عزم تحریکیں ختم ہوتی گئیں۔

بلوچ لاوارث ہوتا چلا گیا۔ ان کی زمینیوں پر قبضہ گیر اور مضبوطی سے پنجھے گاڑھے بیٹھ گیا۔

آج 18 سال بعد پھر سے ایک انقلاب کا نعرہ گونجا ہے۔ اب کی بار مطالبہ امن کا ہے اور جینے کی آزادی کا ہے۔ بلوچ قوم دوبارہ پر عزم ہے۔ پہلے سے کئی گناہ زیادہ جوش اور جذبے کے ساتھ ریاست کے آگے سینہ تانے وطن کے جوان کھڑے ہیں۔

ہزاروں لوگ ایک ایٹمی طاقت کے سامنے ڈٹ کے کھڑے ہیں اور زندگی اور موت کی جنگ لڑ رے ہیں۔ اس تحریک سے جڑا ہر تیسرا شخص لاپتہ اور ہر دوسرا شخص زخمی ہے۔ بے یارومدگار کربلہ کی زمیں پر کھڑے ہیں۔

ایک بار پھر مطالبات اور مذاکرات ہونے جائینگے اور گمشدگیوں میں، مسخ لاشوں میں یقیناً اضافہ ہوگا اور اب کی بار عورتیں بھی سر فہرست رہینگی۔ لیکن تحریک اب کتنی توانا رہیگی؟ کیا تحریکوں میں اب بھی بلوچ قوم یہ سمجھتی ہے کہ ان کورہنمائوں کی ضرورت ہے؟

اتنی قربانیوں کے بعد بھی کیا ہر ایک کو آگائی مہم کی ضرورت ہے؟ کیا ہر بار ایک رہنما کے ہونے سے تحریکیں توانا ہونگیں؟ یا پھر اب قوم خود شعور کی طرف گامزن ہو چکی ہے؟ اپنے دوست اور دشمن کو پرکھنا سیکھ چکی ہے؟

اپنی بقا، اپنی شناخت کیلئے ہر بلوچ کو اپنے ہر سوال کا جواب از خود ڈھونڈنا ہے۔

اب وہ وقت آگیا ہے کہ کسی ہجوم، کسی مچی، کسی لیڈر کا انتظار کیے بغیر اپنی بقا، اپنی شناخت کی جنگ خود لڑنا ہے۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *