اے بلوچستان!تیرے سر سبز و شاداب میدان،تیرے اُبھرے مضبوط پہاڑ و چٹان،تیرے نیلے بہتے دریا،تیری نرم خاک و مٹی،تیرے کھلتے و مہکتے پھول،تیری خوبصورتی اور پہچان!!
اے میرے پیارے وطن! تو کس خون کے دریا میں ڈوبا ہے؟تو کس کے ظلم و جبر میں سہما ہوا ہے؟تو کس جرم میں گرفتار ہے؟تو کِن گناہوں کی سزا جھیل رہا ہے؟تو اتنے ظلم و ستم کیوں سہہ رہا ہے؟
اے مہرستان! تیرے مظلوم دیوانے کہاں ہیں؟کہاں ہیں تیرے لوگ؟کیوں غاضب کے جال میں پھنسے ہوہے ہیں؟کیوں بابا نوروز بلوچ کی طرح اذیت خانوں میں ہیں؟کیوں حضرت موسیٰ کی طرح فرعون جیسے وحشیوں کے اذیتوں کا شکار ہیں؟کیوں انہیں آج بھی شہید اسد بلوچ کی طرح لاپتہ کیا جا رہاہے؟ کیوں شہید قمبر چاکر کی طرح ان کی گولیوں سے چھلنی لاشیں پھینکی جا رہی ہیں؟۔کیوں غلام محمد،لالا منیر کی طرح ان کی بھی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں ،کنوئوں میںپھینکے اوراجتماعی قبروں میں ڈالے جا رہے ہیں؟کیوں شہید حمید بلوچ کی طرح ان کا بھی سر پھا نسی کے پندھے میں ہیں؟کیوں ہر وہ نوجوان جو اپنے وطن کی آزادی کی خواہش رکھتا ہے حیربیارمری کی طرح جلاوطنی کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں؟
اے میرے عزیز وطن!تو ان دلدلوں میں کیوں ہے؟تیری آزادی کیوں سلب کردی گئی ہے؟اے وطن! تیرے لوگوں کا کوئی محافظ نہیں ہے۔تیرے لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔اسی چوکی و چار دیواری میں تیری بہنوں،ماؤں اور بیٹیوں کی عزتیں پامال ہورہی ہیں۔تیرے نوجوانوں کی خون سے لت پت لاشیں گھر کی چوکھٹ پر پھینکی جا رہی ہیں۔تیرے بوڑھے بزرگوں کے کندھے توڑ دیے گئے ہیں۔تیری ماؤں کے گود اُجاڑ دیے گئے ہیں اور نازوں سے پالے ہوئے فرزندوں کوبارودی مواد سے اڑایا جارہا ہے۔اے بلوچستان!تیرے بدخواہوں نے تیرے فرزند وں کوپنچھیوں کی طرح پنجروں میں بند کیاہواہے اور تجھے خون کے دریا میں ڈباکر تنگ و تاریک وادی میں چھوڑ گیاہے۔
اے میرے محبوب وطن!اس استعماری ملک میں ہمارے ساتھ اجنبیت کا رویہ رکھا جارہا ہے۔ہمیں یتیموں اور لاوارثوں کی طرح ٹریٹ کیا جارہا ہے۔ہم جو حق کے خاطر گھروں سے نکلے ہیں،اپنے عزیزوں کی بازیابی کے لیے سر پر کفن باندھ کر سڑکوں پر آ بیٹھے ہیں۔اپنوں کی آزادی کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں تو ہماری آواز یں دبائی جا رہی ہیں۔ہماری زبان کاٹ دی جارہی ہے،ہمارا راستہ روکا جارہا ہے،ہم پر ڈنڈے برسائے جارہے ہیں ،ہم پر شیلنگ کی جارہی ہے ،ہمیں گھسیٹا جا رہا ہے،ہمیں مارا جا رہا ہے،ہم پر نہ تو صرف جسمانی تشدد بلکہ ذہنی تشدد بھی کی جا رہیہے۔ہمارے نوجوانوں کو ایک بار پھر درجنوں کی تعداد میں لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ہماری ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں کو سرے بازار میں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ہمارے بوڑھے بزرگ ماؤں کا گلا گھونٹ دیا جارہا ہے۔ہمیں ہراساں کرنے،ہم پر تشدد کرنے اور اذیتیں دینے کے لیے ہر ممکن طریقہ اپنایا جارہاہے۔
اے وطن!تجھے ہم سے چھینا جارہا ہے،تجھے ہم سے بہت دور لے جارہے ہیں۔یہ وحشی، یہ فرعون ہمیں دہشتگرد کہتے ہیں۔ہمیں نام نہاد دہشتگرد ہونے کی پاداش میں ماؤراہے عدالت میں مارا جارہا ہے۔آج بھی ہمیں “مارو اور پھینکو”کی پالیسی کے نذر کیا جا رہا ہے۔پر پھر بھی کہتے ہیں ہم نے تو کچھ کیا ہی نہیں،ہم نے تو کسی کو نہیں مارا،ہم کسی کو نہیں جانتے ہیں۔اے میرے محبوب!یہ کہتے ہیں ہم نہیں جانتے بالاچ کون ہے؟ہم نہیں جانتے حیات کون ہے؟شاداد،احسان،آفتاب یہ سب کون ہیں؟۔بس ایک ہی جملہ بار بار دہراتے ہیں کہ اوربار بار یہی کہتے ہیں کہ بلوچ دہشتگرد ہیں۔ بلوچ خونی انقلابی ہیں اور بلوچ غدار ہیں اور غدار کی صرف ایک ہی سزا ہوتی ہے اور وہ ہے موت۔۔۔!
اے بلوچستان!تو کب آزاد ہوگا؟تو کب زنجیروں کو توڑکر باہر آئے گا؟یہ غلامی کے پندھے جو ہمارے پاؤں میں بندھے ہوئے ہیں تو ان کو کب اتارپھینکے گا؟کب تو ایک آزاد وطن کہلائے گا اور ہم کب آزاد شہری کہلائیں گے؟اور وہ دن کب آئے گا؟ جب ہم یہ سنیں گے کہ بلوچ تو آزاد ہیں، آزادی سے جی سکتے ہیں،انہیں جینے کا حق میسر ہے اور محفوظ ہیں؟کب یہ الفاظ ہمارے کانوں میں گونجیں گی؟کب ہم بڑے فخر سے اور ببانگ دہل پورے دنیا کوکہیں گے کہ ہم غلام نہیں ہیں اور ہم آزاد ہیں؟کب ہمارا اپناپرچم آزاد فضائوں میں لہرائے گا؟کب ہمارے گھر کی چوکھٹ خون کے سرخ داغوں سے پاک ہونگے؟کب ہمارے گھر وںآزادی کے دیے جلیں گے جس کی ہم برسوں سے خواہاں ہیں؟کب بےبس مائیں اور بہنیں اپنے بھائیوں کو سہرا پہنا کر اپنے دل کی مرادیں پوری کرینگی؟کب ایک باپ اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی ٹھنڈی چاہوں میں رکھے گا؟کب ایک بھائی اپنی بہن کا ہاتھ پکڑ کر اسے تحفظ کا احساس دلاہے گا؟کب ایک ماں اپنے بیٹے کو سینے سے لگائے گی؟اسے اپنے ہاتھوں سے کھلائے گی؟اپنے جگر کے ٹکڑے کو اپنے گود میں سکون سے سلاہے گی؟کب وہ دن آئے گا جب ماں،باپ اور بھائی اپنی بیٹی اور بہن کو خوشی سے رخصت کرینگے؟کب طالب علم بنا کسی ڈر کے قلم و کتاب اٹھائیں گے؟کب بستہ لے کر اسکول کی طرف بھاگیں گے؟کب کھلے آسمان میں ہم بھی عقاب کی طرح اونچی اُڑان اڑیں گے؟اور کب وہ دن آئے گا جب آزاد ہونگے ہم؟
اے گُل و گُلزار!تیری کمزور وبوڑھی مائیں جو سالوں سے اپنے بیٹوں کی بازیابی کے لیے دربدر کی ٹوکریں کھارہی تھیں آج اپنے بیٹے کی صرف تصویر وںکو سینے سے لگا کر زندگی آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ اے گلزمین!تیری بیٹیاں دن رات ایک ہی سوال کرتی ہیں کہ ہمارے ابو کب آئیںگے اور ہر عید جو لوگ اپنے والد کے ساتھ خوشی سے مناتے ہیں،میں کب مناؤں گی؟تیرے لاپتہ فرندوں کے بزرگ والدین ہر روز دروازہ تکتے رہتے ہیں کہ میرا عزیزِمن آئے گا،میرا لخت جگر آئے گاوہ اس سراب کو جی کر مرکھپ گئے ہیں۔
اے وطن!تو جانتا ہے نہ وہ مزاحمت کار جو لوہے کی طرح ڈٹے ہیں،اندر سے بہت ٹوٹے ہوئے ہیں۔ماما قدیر جو اپنے اکلوتے بیٹے جلیل ریکی کی یاد میں کئی سالوں سے کیمپ لگاہے بیٹھے ہیں۔اس عمر میں جسے سہارے کی ضرورت ہے وہ سڑکوں پر ٹوکریں کھارہے ہیں۔پولیس لاٹھی چارج،شیلنگ،سردی میں ٹھنڈے پانی،ان سب ظلم و ستم کا سامناکر رہا ہے۔دوسری جانب وہ 70 سال کا بزرگ جو اس عمر میں اپنی بستر سے اٹھ نہ پائے اور اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ پائے ،اپنے بیٹے فتح جان کی بازیابی کے لیے تشدد سہہ رہا ہے۔سخت سردی،گرمی،بارشوں کی پرواہ کیے بغیر کیمپوں اور ریلیوں میں حصہ لے رہا ہے۔یہ بے بس باپ کئی مہینوں سے اپنے عصا کی تلاش میں ہے جو انسان نما درندوں کے ہاتھوں زندان میں ہے۔
وہ بوڑھی ماں جو صرف ایک ہی جملہ دہراتی ہے کہ میرا بیٹا مجھے لوٹاؤ،میرا شاہ نواز مجھے لوٹاؤ،بس اپنا آخری سانس اپنے بیٹے کو دیکھ کر اوراسے گلے لگاتے ہوئے لینا چاہتی ہے،اپنے بیٹے کے دیدار کی امید لیے اپنی ڈوبتی سانسوں کو بچا رہی ہے ۔اس عمر میں بھی بوڑھی ماں ظلم و جبر کا شکار ہیں ۔مزید یہ کہ وہ 11 سال کی بچی جس کا وقت سکول جانے اور کتابیں پڑھنے کا ہے،اپنے ماموں جہانزیب بلوچ کی تصویر ہاتھوں میں تھمائے نعرے لگا رہی ہے۔اسی طرح مہر گل مری کی چھوٹی بیٹی اپنے والد صاحب کا نام لے کے رو پڑتی ہے کچھ بول نہیں پاتی۔سمی دین محمد بلوچ،مہلب دین محمد بلوچ اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنا بچپن تو بن باپ کے گزار دی ہے،کیا یہ بچے بھی اپنے والد صاحب کو دیکھنے کے لیے اسی طرح ترستے رہیں گے؟کیا یہ بچے بھی باپ کے ہوتے ہوئے بھی یتیموں کی زندگی گزاریں گے؟ کیا ہمیشہ کی طرح دھوپ میں جھلستے رہیں گے؟ کیا انکے سر پر کبھی کوئی ہاتھ رکھنے والا نہیں ہوگا؟کبھی بھی نہیں؟
اے گلزمین! شہید حیات بلوچ کی ماں آج بھی اپنے لختِ جگر کو یاد کرکے روتی ہے۔آج بھی اس کے دل کی آہ آسمان چھیر پھاڑ دیتی ہے۔یہی ماں جو اپنے بیٹے سے ہمیشہ کہتی تھی میں اسی دن کے انتظار میں ہوں جب تمہارے ہاتھوں میں مہندی اور سر پر سہرا ہوگا۔کیا اس ماں کی بد دعائیں نسلیں تبا کر نہیں رکھ دیں گی؟۔ ظالموں نے ماں باپ کے سامنے اس کے جوان بیٹے کی آٹھ گولیوں سے چھلنی لاش پھینک دی جس کو وہ گہری نظروں سے دیکھتے تک نہیں تھے۔کب تک ایسا ہوتا رئے گا؟کب تک ماں باپ وحشیوں کے پاؤں پکڑ کر ان سے منتیں کرینگے کہ مزید نہیں مارو میرے لختِ جگر کو کہ شاید وہ بچ جائے؟کب تک ماں باپ شہید حیات بلوچ کی طرح اپنے ہزاروں بیٹوں کو خون سے لت پت تڑپتے ہوئے آخری سانس لیتے ہوہے دیکھیں گے؟کب تک تیرے شیدائیوں کو،سفید پوشاک میں لپٹے ہوئے نوجوان شہید بالاچ بلوچ کی طرح ماں کی جولی میں پھینکا جائے گا؟کب تک ماں،بہنوں کے کپڑے اپنے عزیزوں کے خون سے سرخ مائل ہوتے رہیں گے؟کب تک ایک بوڑھا باپ اپنے جوان و شہید بیٹے کو کندھا دیتا رہے گا؟آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا؟کب تک اہلِ غم ماں کا دل اس طرح جلتا اور سلگتا رہے گا؟
کہتے ہیں”ریاست ماں ہوتی ہے”تو ایک ماں دوسرے ماں کا درد کیسے سمجھ نہیں سکتی؟یہ ریاست کیسی ماں ہے جو اپنے بچوں کو موت کے گھاٹ اتار تھی ہے؟کیا ایسی ہوتی ہے ماں جو اپنے بچوں کو اپنے پلّوں میں چھپانے کے بجاہے اس پر ڈنڈے برسا تھی ہے؟ اپنے بچوں پر تشدد کرتی ہے؟سخت سردی میں اپنے بچوں کو ٹھنڈ سے بچانے کے بجاہے اس پر ٹھنڈا پانی پھینکتی ہے؟کیا ایسی ہوتی ہے ماں؟
اے میرے عالیشان وطن!ہمارے ساتھ یہ ظالم و سامراج ریاست،سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہی ہے۔ہمیں زنجیروں میں جکڑ رہی ہے۔اس منہ بولی ماں “ریاست” کے سامنے ہماری حیثیت ایک غلام جیسی ہے۔اے وطن! تو کب آزاد ہوگا اور کب ہمیں اس سفاک اور فاشسٹ ریاست سے رہائی دلائے گا؟کب آزاد ہونگے ہم۔۔۔۔؟
اے میرے محبوب و عزیز وطن!اب یہ جنگ کا آخری مرحلہ ہوگا جب تو آزاد ہوگا۔اب ظالموں کا انت ہوگا،ہر ظلم کا حساب ہوگا،ہر وہ آنسوں جو ماں کے آنکھوں سے نکلتی ہے،اس کا حساب ہوگا،ہر ایک خون کا بدلہ لیا جائے گا۔تیری آزادی کے جتنے خواب دیکھے ہیں ان کی تعبیر کے لیے ہر ممکن جہدوجہد کرینگے۔ہمارا تن،من،دن سب تجھ پر قربان اور تیرے نوجوان سر پر کفن باندھ کر نکلیں گے اور آخری سانس تک تیری آزادی کے لیے لڑتے رہیںگے اور تجھے آزاد کرینگے۔آزاد بلوچستان!
Add comment