جبری گمشدگی ایک ایسا المیہ ہے جس سے بلوچستان کا ہر فرد واقف ہے۔ سالہا سال سے جاری جبر اور ظلم نے نہ صرف ہزاروں افراد کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا بلکہ پورے سماج کو خوف اور نفسیاتی اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ محض کسی ایک فرد پر ہونے والا ظلم نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پورے معاشرے کو خوفزدہ کرنے کی پالیسی کا حصہ ہے۔جب کوئی شخص جبری طور پر لاپتہ کیا جاتا ہے، تو اس کے اہلِ خانہ پر شدید نفسیاتی اور سماجی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ انہیں خاموش کرانے کے لیے مختلف حربے آزمائے جاتے ہیں، جیسے مقامی افراد کے ذریعے پیغام بھجوانا کہ آواز اٹھانے سے بہتر ہے کہ خاموش رہا جائے، ورنہ لاپتہ فرد کو مزید تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔ لواحقین خوف کے باعث خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، لیکن یہ خاموشی بھی ان کے پیارے کی حفاظت کی ضمانت نہیں بنتی۔

جبری گمشدگی کے بعد اہلِ خانہ انصاف کے لیے پہلے ریاستی اداروں سے رجوع کرتے ہیں، لیکن انہیں مسلسل ہراس اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پولیس اکثر ایف آئی آر درج کرنے سے گریز کرتی ہے۔عدالتوں میں مقدمات دباؤ اور خوف کے باعث آگے نہیں بڑھتےجو لواحقین سوشل میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں یا صحافیوں سے مدد مانگتے ہیں، انہیں دھمکایا جاتا ہے۔بعض صورتوں میں، آواز اٹھانے والے دیگر افرادوں کو بھی جبری طور پر لاپتہ کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ آواز اٹھانے والے شخص پر جھوٹے مقدمات درج کرکے انکے گھروں پر چھاپے مار کر خاندان کو ہراساں کیا جاتا ہے۔علاقہ مکین سب لاپتہ افراد کے خاندان سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں یا قطعہ تعلق کیا جاتا ہے جس سے خاندان یا تو چپ ہو جاتا ہے یا پھر علاقہ بدر ہو جاتے ہیں۔

یہ تمام حربے اس لیے آزمائے جاتے ہیں تاکہ متاثرہ خاندان خوفزدہ ہو کر خاموش ہو جائے۔ یا ان واقعات کو دیکھ کر لوگوں کی اکثریت آواز نہ اٹھائے ۔ایسے بے شمار واقعات ہیں جہاں اہلِ خانہ نے یہ سوچ کر خاموشی اختیار کی کہ شاید ان کا لاپتہ فرد محفوظ رہے، لیکن کچھ عرصہ بعد انہیں اپنے پیاروں کی مسخ شدہ لاش ملی، یا پھر کبھی کوئی سراغ ہی نہ ملا۔

توتک کا واقعہ جہاں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں جن میں سینکڑوں نوجوان دفن تھے۔
2006میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد کئی خاندانوں کے نوجوان لاپتہ ہوئے، احتجاج نہ ہونے کے باعث ان کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا، اور باقی افراد کو جلاوطنی پر مجبور کیا گیا۔
سال2015 مکران سے دو نوجوان لاپتہ کیے گئے، اہلِ خانہ کو خاموش رہنے کی دھمکی دی گئی، اور بعد میں دونوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔

2016 شال کےایک خاندان کے دو نوجوانوں کو لاپتہ کیا گیا، ڈیڑھ سال قید کے بعد انہیں جعلی مقابلے میں قتل کر کے ان کی تشدد زدہ لاشیں پھینک دی گئیں۔
پنجگور 2017میں مقامی افراد کے دباو ڈالنے کی وجہ سے اہل خانہ چپ رہی بعد میں اسکی بھی مسخ شدہ لاش ملی۔

2019 میں کئی نوجوان جبری طور پر لاپتہ کیے گئے، اہلِ خانہ نے خوف کے باعث خاموشی اختیار کی، لیکن بعد میں ان کی لاشیں ملی یا وہ ہمیشہ کے لیے غائب ہو گئے۔
یہ تمام واقعات اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ خاموشی کسی صورت بھی لاپتہ افراد کو واپس لانے یا محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت نہیں ہوتی، بلکہ اس سے ظلم مزید بڑھتا ہے۔بلوچستان جیسے پسماندہ خطے میں ظلم کے خلاف بولنا آسان نہیں، لیکن پاکستانی آئین اور بین الاقوامی قوانین ہر شہری کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا حق دیتے ہیں۔

2015 میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے اعتراف کیا کہ آزادی اظہارِ رائے ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔

سال2016 آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ اگر لوگ آئینی حدود میں رہ کر احتجاج کریں تو فوج ان کے ساتھ ہے۔
اسی طرح 2018اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے کہا کہ ہر شہری کو اپنے حقوق کے لیے پرامن طریقے سے احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے، خاص طور پر جب ریاستی جبر بڑھ جائے۔

2019میں میجر جنرل آصف غفور نے تسلیم کیا کہ جو لوگ آئین کے دائرے میں رہ کر احتجاج کرتے ہیں تو ان کی آواز کو سننا ضروری ہے۔
حامد میر، عاصمہ شیرازی اور دیگر صحافیوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ احتجاج ہر شہری کا آئینی حق ہے اور اس حق کو دباناجمہوری اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔جب ریاستی ادارے اور بین الاقوامی تنظیمیں بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ شہریوں کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا حق حاصل ہے، تو پھر خوفزدہ ہو کر خاموش رہنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔اگر آپ کا کوئی عزیز جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا ہے، تو درج ذیل اقدامات آپ کی مدد کر سکتے ہیں:
*قریبی تھانے میں رپورٹ درج کرائیں چاہے پولیس ایف آئی آر درج کرے یا نہ کرے، درخواست دینا ضروری ہے۔
*عدالت سے رجوع کریں اگر ممکن ہو تو کسی وکیل کی مدد سے حبسِ بے جا کی درخواست دائر کریں۔

*صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطہ کریں وہ آپ کے کیس کو اجاگر کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔

* اقوامِ متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے ذریعے معاملہ عالمی سطح پر اٹھائیں۔

*جبری گمشدگی کے خلاف منظم آواز بنیں تاکہ حکام پر دباؤ ڈالا جا سکے۔

یہ اقدامات نہ صرف آپ کے پیارے کو محفوظ رکھنے میں مدد دے سکتے ہیں بلکہ دیگر متاثرہ خاندانوں کے لیے بھی امید کی کرن ثابت ہو سکتے ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جبری گمشدگی کے خلاف آواز اٹھانا بغاوت نہیں بلکہ ایک آئینی و قانونی حق ہے۔ اگر ہم متحد ہو کر، منظم طریقے سے اپنے لاپتہ افراد کے لیے آواز بلند کریں، تو ممکن ہے کہ ایک دن ہمیں انصاف ملے اور یہ ظلم ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔
ظلم کے خلاف خاموش رہنے کا مطلب ہے کہ ہم بھی اس ظلم کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے پیاروں کے لیے، اپنے حقوق کے لیے، اور اپنے مستقبل کے لیے آواز اٹھائیں۔بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف بولنا آسان نہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خاموشی نے آج تک کسی کو نہیں بچایا۔ یہ صرف ظالم کو مزید بے خوف بناتی ہے۔

اگر بات کرنے سے نقصان ہوتا تو وہ لوگ جو مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں، آج سب سے زیادہ متاثر ہوتے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔وہی خاندان جو اپنے لاپتہ افراد کے لیے مسلسل آواز بلند کر رہے ہیں، وہی ان کے لیے امید کی کرن بھی بنے ہوئے ہیں۔ان کے احتجاج اور کوششوں کی بدولت کئی لاپتہ افراد بازیاب ہو چکے ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیمیں، صحافی اور عدالتیں ان کی آواز سن رہی ہیں۔اس کے برعکس، جو خاندان خاموش رہے، ان کے لاپتہ افراد کا آج تک کوئی نام و نشان تک نہیں ملا۔اگر ظلم کے خلاف صرف ایک یا دو افراد آواز اٹھائیں تو شاید انہیں دبانے کی کوشش کی جائے، لیکن جب پورا معاشرہ متحد ہو جائے تو پھر ظلم کے پاس پسپائی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *