بقول میر یوسف عزیز مگسی:

اب سرداروں کے سدھرنے کے دن گزر چکے، اب انہیں کچلنا چاہیے۔

اور ہم اکثر زکر کرتے ھیکہ : تاریخ بہادروں کی لکھی جائیگی نہ کہ تلوے چاٹنے والوں کی ۔

جیسے تاریخ میں ہمیں بہادر سردار کے مثالیں ملتی ہے جوکہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہینگے اور آنے والی نسلیں ان کی مثال دیتے رہینگے۔ ان میں سے ایک نام اور کردار شھید نواب نوروز خان زہری کے ہے جنہوں نے ایک بلوچ عورت کے عزت کیلۓ اپنی جان کا پرواہ نہ کرتے ہوۓ دشمن کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا۔

نواب نوروز خان زہری، جنہوں نے بلوچ قوم کے خلاف پاکستانی ریاست کے جبر اور ناانصافیوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔ 1950 کی دہائی کے آخر میں، انہوں نے حکومت کی طرف سے بلوچستان کے جبری انضمام اور بلوچوں کے حقوق کو مسلسل دبانے کے خلاف مسلح جدوجہد کی قیادت کی۔ اس کی مزاحمت بلوچ قوم کی خودمختاری، وقار اور ثقافتی ورثے بالخصوص بلوچ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے گہری وابستگی تھی۔ مذاکرات کے جھوٹے وعدوں سے دھوکہ دے کر، نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو 1959 میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے بڑھاپے کے باوجود، انہیں قید کر دیا گیا، اور ان کے بیٹوں اور ساتھی جنگجوؤں کو پھانسی دے دی گئی۔ انہیں اسیری میں شھید کیا گیا، نوروز خان زرک زہئ بلوچ مزاحمت اور قربانی کی علامت بن گیۓ۔ ان کا موقف، قربانی ، جنگی حکمت عملی اور بہادری بلوچ قوم کے آنے والے نسلوں کو متاثر کرتا ہے جو اپنی شناخت، خودمختاری اور آجوہئ کیلۓ جاریت کے خلاف مزاحمت کے قاہل ہے۔

دوسری جانب : با باۓ قوم شھید نواب اکبر خان بگٹی جنہوں نے بلوچستان میں قبائلی روایات کو مد نظر رکھتے ہوۓ اپنی زندگی بلوچ سمیت دیگر مظلوم اقوام اور بلوچستان کے حقوق، وقار، آزادی اور وسائل کے دفاع کے لیے وقف کر دی۔

سوئی شہر میں پاکستانی فوجی آفیسر کرنل حماد کے ہاتھوں میں ڈاکٹر شازیہ خالد کے ساتھ زیادتی (ریپ) کے بعد پاکستانی ریاست کے خلاف ان کی مسلح مزاحمت کا آغاز ہوا۔ نواب بگٹی نے سندھی خاتوں ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ ریپ کیس زیادتی میں انصاف کا مطالبہ کیا اور اصرار کیا کہ اس آفیسر کو بلوچی جرگہ میں پیش کیا جاۓ تاکہ بلوچ روایات کے مطابق تحقیقات کرکے سزا دے دی جاۓ، فوجی افسر کے خلاف مقدمہ بلوچی عدالت میں چلایا جائے، لیکن ریاست نے بڑے پیمانے پر غم و غصے کو ہوا دیتے ہوئے مجرم کو تحفظ فراہم کرتے ہوۓ سوہئ سے فرار ہونے میں مدد کی، بلوچستان میں مقیم غیر بلوچ عورت کے ساتھ ناانصافی کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے، نواب بگٹی نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے، بلوچ قومی آزادی کے لیے ایک جدوجہد کی قیادت کی اعلان کرتے ہوۓ۔

2006 میں، امن مذاکرات کے دوران، پاکستانی فوج نے ایک وحشیانہ آپریشن شروع کی جس میں نواب اکبر خان کے محفوظ ٹھکانوں میں بمب اور بارود برساۓ گۓ، جس میں نواب بگٹی کو ان کے گوریلا جنگجوؤں کے ساتھ ایک ٹارگٹڈ حملے میں شھید کر دیا۔ ان کی شہادت نے ایک مضبوط مزاحمتی تحریک کو بھڑکا دیا، اور آج تک، بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کیلے جاری ہے، ان کی فکر بلوچ قوم کیلۓ ایک نہئ باب تھی جوکہ بلوچستان کے کونے کونے تک پہل گئ ہے۔

یزیدی ریاست اور اس کے پراکسیوں کی طرف سے بلوچ قوم پر جاری ظلم مسلسل بڑھتا جا رہا ہے جوکہ لمہ فکریہ ہے دوسری جانب بلوچ سرداروں کو چند مراعات دے کر بلوچ قوم جہدؤجہد کو کمزور کرنے کا کھلا چھوٹ دے دے گئ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تاریخ سے سبق حاصل کرنے سے گریزاں۔ بلوچ قوم نے اپنی عزت نفس پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور کئی دہائیوں کی مزاحمت کے باوجود ریاستی حمایت یافتہ قوتیں اپنے وحشیانہ ہتھکنڈوں پر قائم ہیں۔ ایک بار پھر، نام نہاد قبائلی اشرافیہ اور ریاستی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈز کو بلوچستان کی آواز کو دبانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ خضدار میں ایک بلوچ نوجوان لڑکی عاصمہ جتک کا حالیہ اغوا بلوچ خواتین اور اس کے خاندان پر منظم تشدد کی ایک اور المناک مثال ہے۔ دہشت گردی کی اس کارروائی سے بلوچستان بھر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے، قوم ایسے مظالم کی شدید مذمت کرتی چلی آرہی ہے۔

بلوچ عوام کو ان ناانصافیوں کے خلاف متحد ہونے کا وقت آگیا ہے، بلوچ قوم کو اپنی جدوجہد کو کمزور کرنے کی کوشش کرنے والی قوتوں کا مقابلہ کرنا چاہیے، اور ریاستی حمایت یافتہ جبر کا شکار ہونے والے تمام متاثرین کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوۓ متحد ہونے کا عزم کرلیں بلوچستان کی تاریخ لچک سے عبارت ہے اور انصاف، وقار اور آزادی کی بحالی تک جدوجہد جاری رہے گی۔

ایک بار پھر خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ نام نہاد سرداروں کا جرگہ بلا کر بلوچ قوم کے غم ؤ غصہ کو ٹنڈی ہوا پھونک دی جاہیگی مرکزی مجرموں کو چور راستہ سے بھاگنے کا مواقع فراہم کیا جاہیگا اس کے علاوہ ریاستی ادارے مزاکرات مزاکرات کا کھیل کھیلتے ہوۓ عوام کو منتشر کرنے میں ہر حربہ استعمال کرینگے مگر قارہیں یاد رہے یہ وہ مخصوص ٹولہ ہے جنہوں نے نواب نوروز خان کو قرآن پاک کا واسطہ دے کر مزاکرات کے نام پہ پہاڑوں سے نیچے اتار کر گرفتار کیا ، یہ وہی نادیدہ قوتیں ہے جنہوں نے مزاکرات کا ڈرامہ رچا کر نواب اکبر خان بگٹی کو شھید کیا گیا۔ اب فیصلہ بلوچی عدالت میں ہونی چاہیے ورنہ بلوچستان میں ایسا کوہئ گھر محفوظ نہیں رہیگی جہاں عورتیں اپنی چاردیواری میں محفوظ رہیں۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *