میر غونث بخش بزنجو کے ہمدرد اور سیاسی جانشین جو ہمیشہ ان کے سیاست کی تعریف و توصیف کرتے رہتے ہیں، ان کے پاس سب سے اہم دستاویز غونث بخش بزنجو صاحب کی ریاست قلات کے دارالعوام میں جبری الحاق کے خلاف ان کی گئ تقریر سن انیس سو اڑتالیس کا حوالہ ہی ہے ۔ میر صاحب کی یہ تقریر ، اس کی حقیقت و حیثیت اور مقاصد کے حوالے سے حقائق کا ڈھونڈنا ، تصدیق کرنا اور اس کی سچائی جان کر اس تقریر کا تنقیدی جائزہ لے کر اس پر تبصرہ کرنا تاریخ اور سیاسیات کے طالبعلموں کے لئے ہمیشہ اہمیت کا حامل رہے گا ۔

” صورت خان مری صاحب ان کی اس تقریر کو ہوس اقتدار کی خواہش کا اظہار قرار دیتے ہیں نہ کہ ایک شعوری اور قومی مقصدیت کا حامل کوئی عمل۔ اسی طرح أف دی ریکارڈ ” انور ساجدی صاحب بھی اس تقریر کے حوالہ سے الگ رائے رکھتے ہیں “۔جو کے کچھ اچھی نہیں ہے۔

غور سے جانچا جائے تو بزنجو صاحب کے ماننے والوں میں زیادہ تر بیوروکریٹس اور کاروباری حضرات ہی رہے ہیں جن کا اہم مقصد ان کے زاتی و کاروباری مفادات ہی رہے ہیں۔ اکثر ایسے لوگوں کو بزنجو صاحب کی مفاہمتی پالیسیاں، ہاں میں ہاں ملانے والا اور حتیٰ کے قومی معاملات میں بھی مخالف کے سامنے اختلاف نہ رکھنے والا ایک “لبرل انسان ” ہی کہتے ہیں ۔ ان کا یعی رویا حتیٰ کے فوجی أمروں @ثد$(یعنی ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیاءالحق کے ساتھ بھی رہا ہے۔اس فہرست میں زولفقار علی بھٹو , کراچی کی کاروباری مستی خان خاندان اور ہارون خاندان بھی شامل ہیں۔ مجھے زاتی طور پر وہ بنسبت ایک زہین سیاستدان کے ایک شفیق بزرگ اور ایک پریشان حال انسان لگے جن کا کام شاہد سیاست کرنا تھا ہی نہیں ۔البتہ انھیں اقتدار کا حرث اور شوق ہمیشہ سے رہا ہے ۔

وہ کراچی سے ایک وفد کیساتھ “کراچی لیگ” کی نمائندگی کرنے “قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی ” کے جلسے میں شامل ہونے أتے ہیں اور اپنے سیاسی دستوں سے بمعہ تنظیم مشورہ کئے بغیر ” قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی ” میں شمولیت اختیار کرلیتے ہیں ۔ پھر بیکوقت “کمیونسٹ پارٹی أف ہندوستان” کے ممبر اور پھر عہدیدار بھی رہےہیں۔ اس کے بعد حالات نے جیسے پلٹہ کھایا تو میر صاحب ہمیں سیاسی نظریہ کے بجائے حالات کے بھنور میں پھسلتے نظر أتے ہیں جہاں سے وہ “مسلم لیگ اور کمیونسٹ پارٹی أف پاکستان ” میں شامل ہوتے ہوئے ملتے ہیں۔

انیس سو اڑتالیس میں بلوچستان کی پاکستان میں زبردستی شامل کئے جانے کے خلاف ہوتے ہیں جبکہ “مسلم لیگ اور کمیونسٹ پارٹی أف پاکستان” یہ دونوں پارٹیاں ریاست ء بلوچ کی أزاد حیثیت کے خلاف ہوتے ہیں اور میر صاحب ان دونوں پارٹیوں میں شامل ہو جاتے ہیں ۔

جن دنوں بنگالیوں کی قومی تحریک چل رہی ہوتی ہے تو میر صاحب ریاست پاکستان پنجابی مقتدرہ اور ایک فوجی أمر کا نمائندہ بن کر بنگالیوں کو اس بات پر أمادہ کرنے کی کوشش کرنے جاتے ہیں کہ وہ اپنی جدوجہد أزادی سے دستبردار ہوں، اسی وجہ سے جب نواب بگٹی بنگلہ دیش میں جاری مظالم کے خلاف کوئٹہ میں احتجاجی ریلیاں نکالتے ہیں اور بعد میں ڈھاکا جاکر شیخ مجیب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہیں تو اس وقت کے “نیپ بلوچستان ” کی قیادت کو نواب صاحب کےخلاف ایک پریس کانفرنس کرنا پڑتا ہے۔

ایسے ہی معاملات کی بدولت انھیں بابائے مزاکرات کہا جاتا تھا۔
سردار عطاءاللہ خان سلیگ ہیریسن کو دیۓ گیے اپنے انٹرویو میں کہتے ہیکہ ہم سب سیاست کیے بغیر ، یعنی متحرک رہے بغیر رہ سکتے ہیں مگر بزنجو نہیں رہ سکتے ، یعی طرز سیاست ڈاکٹر عبدالحی مرحوم کا بھی تھا۔ جو ہر چوک، ہر مجمع اور ہر پروگرام میں گھنٹوں بولتے ہوئے پائے جاتے اور اسے سیاست کا نام دیتے ۔ مگر علم سیاسیات میں ایسے لوگوں کے لیے کہا جاتا ہیکہ،”They are not political activists, actually they are paid habitual people and their actions are their habits

قادر بخش نظامانی اپنی کتاب “بلوچ قومی تحریک”میں لکھتے ہیکہ عین اس وقت جب أغا عبدالکریم بمعہ باقی دوستوں کے اولین بلوچ قومی مزاحمت کا فیصلہ لے چکے تھے جس می قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی بشمول میر صاحب کے رضا شامل تھی مگر عین وقت پر ساتھ دینے سے انکاری ہوئے اور اس کے بعد مسلم لیگ میں شمولیت اختیاختیار کی۔

“صورت خان مری صاحب کا یہ ماننا ہیکہ انیس سو اڑتالیس کی میر صاحب کی تقریر حصول اقتدار کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ جب یہاں سے انھیں مایوسی ہوئ تو اپنے اسی شوق کی خاطر وہ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے”۔ اور جب انھیں ادھر بھی کچھ نہ ملا تو پھر “نیپ” میں براجمان ہوئے جس کے بعد گورنری قبول کرکے وفاق پاکستان کے نمائندے بن گئے تھے۔اور أخر میں “پی این پی” ان کے پریشان کن ادوار کی أخری کہانی بنی تھی۔

سردار خاندان سے تعلق تھا۔ سردار سفر خان بزنجو کے بھائی تھے۔ مگر تھے متوسط۔ أج ان کی چھوتی نسل سیاست میں ہے مگر ان کے حمایتی کہتے ہیکہ وہ موروثی سیاست کے خلاف تھے۔

خود کو فکر بزنجو کے داعی کہنے والے لوگ جو کھبی عدم تشدد کی بھی بات کرتے ہیں تو کھبی کہتے ہیکہ بلوحستان ایک جنگ ردہ علاقہ ہے اور ہم غیر جانب دار ہیں۔ ان کے ایک مرکزی عہدیدار جو أواران سے ایم پی اے ہے ، انھوں نے حالیہ زہری واقعہ کی بابت ایک مزمتی ویڈیو بیان جاری کیا تو اگلے دن ان کے پارٹی ترجمان کے نام سے ایک اور بیان جاری ہوا جس میں اپنے ایم پی اے کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا تھا اور مزید اس بیان میں لکھا گیا تھا کہ بلوچستان ایک جنگ زدہ علاقہ ہے اور ان کی پارٹی غیر جانبدار رہے گی۔

خیر جان بلوچ انیس سو پچانوے سے ستانوے تک بی ایس او کے چیرمین رہے، تب حق خودارادیت ان کا تنظیمی پروگرام تھا اور وہ بلوچستان ہی کو سرزمین کہتے تھے اور باقی بلوچ علاقوں کو وحدت کہتے تھے۔ مگر أج پاکستان کو ملک کہتے ہیں تو نجانے بلوچستان ان کے لئے کیا ہے؟
ان کی پارٹی ترجمان نے کہا ایسے حالات میں نیشنل پارٹی غیر جانبدار ہے۔ پھر تو انھیں بلوچستان کے حالات پر نہ کھبی بولنا چاہیے نہ راۓ دینی چاہئے اور نہ ہی کسی سے مزاکرات کی بات کرنی چاہئے اور نہ ہی پیغام رساں بن کر باہر پیغامات لیجانے چاہئے ۔

علم سیاسیات کے اندر غیر جانب دار رہنا کوئی سیاسی عمل نہیں ہوتا اور نہ ہی أپ غیر جانب دار رہ سکتے ہیں، بلکہ جب کوئی قوم حالت جنگ میں ہو تو غیر جانب دار رہنا سیاسی منافع خوری اور منافقت کے زمرے میں أتا ہے، اور ایسی قوتیں قابض کی جانب گردانے جاتے ہیں۔ سارتر اور فینن دونوں کا یہ ماننا ہیکہ “جنگ ردہ علاقوں میں قابض کے أخری ہتھیار پارلیمانی پارٹیاں ، کاروباری لوگ اور قبائل پرست قوتیں ہوتی ہیں” ۔ جبکہ مارکس انھیں “Federationist” لکھتا اور کہتا ہیکہ ان کی وفاداری قابض کے ساتھ ہی رہتی ہے”۔ جبکہ ماؤ انھیں “Liberals” کہتے ہیں اور اس کے رد عمل میں “Combat Liberalism” کی صورت میں ان کی پوری تحریریں موجود ہیں جہاں وہ انقلابیوں سے ایسی قوتوں کا راستہ روکنے کی بات کرتے ہیں اور انھیں قابض کا ہمنوا گردانتے ہیں ۔

خیر جان بلوچ سے لیکر ان کی پوری پارٹی قیادت تک کی کہانی بہت دلچسپ ہے، کیونکہ ستر کی دھائ میں جب زولفقار بھٹو نے “ششک” کا نظام ختم کرنے کا اعلان کرکے بزگروں کو مالکانہ حقوق دینے کی بات کی تو أواران میں قدوس بزنجو کے بڑوں نے جو غونث بخش بزنجو کے بزگر تھے ، انھوں نے ششک دینے سے انکار کردیا تو میر صاحب کے چاہنے والے تحش میں أگئے اور انھوں نے بزگروں کے گھروں پر حملہ کردیا جس سےکچھ لوگ مارے گئے اور وہی سے کسان مزدور پارٹی کی بنیاد ڈالی گئ جسے بی ایس او اینٹی سردار/ عوامی کی بھٹو کے کہنے پر حمایت بھی ملی تھی ۔ اور پھر یعی سے مجید بزنجو سیاست میں اگئے تھے۔ کیونکہ مرنے والے میں ان کے چچا اور باقی عزیز و اقارب شامل تھے۔ اس پر محترم امان گچھکی اور انور ساجدی صاحب بہتر انداز میں بیان کرسکتے ہیں۔

دوسری جانب خیر جان بلوچ فکر بزنجو کے ماننے والوں میں سے ہیں۔ بالکل اسی طرح کہور اور یاسین گروپ کی أپسی لڑائی کون بھول سکتا ہے، اس سے پہلے ” بی این وائ ایم اور پھر بی این ایم حئ گروپ ” بھی بنا لیے گئے تھے، جنھوں نے بابا بزنجو کو ہرا کر اسبملی تک پہنچے تھے۔
دلچسپ امر یہ ہیکہ أج خیر جان بلوچ اور قدوس بزنجو اکھٹے ہیں اور ان کی پارٹیاں اتحادی ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر یاسین جب روڈ حادثے میں مرا تو ڈاکٹر کہور خان اسی پارٹی میں شامل ہوا۔

میر صاحب کو ہرانے والوں میں سے ایک منظور گچکی صاحب تھے جو أج انھیں کی پارٹی کا حصہ ہیں۔ سب نے اپنے مخالفین کے خلاف کیسز دائر کرکے ان کا جینا محال کردیا ہے مگرخیر جان یہاں بھی خوش نصیب نظر أتے ہیں ، یعی معاملہ خود ڈاکٹر مالک اور جان بلیدی کا ہے، موصوف کو سینیٹر بناکر خاموش کرادیا گیا۔ کہتے ہیں سابقہ نگراں وزیر اعظم نے انھیں ان کے مخالفین سے ملواکر نہ صرف خوش اور چھپ کروایا ہے بلکہ سینٹر بنوانے میں بھی ان کا بڑا ہاتھ ہے ۔

طاہر بزنجو نے ایک کتاب بعنوان
” بلوچستان ۔ کیا ہوا، کیا ہوگا”؟۔ انیس سو اٹھاسی میں میر صاحب کے الیکشن میں ہارنے کے بعد ان کے سیاسی مخالفین کے بارے میں لکھی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے
” بی این وائ ایم، بی این ایم حئ اور ان کے طلبہ ونگ بی ایس او” کو بکاؤ مال اور سیاسی سوداگر کہا ہے۔ وہ لکھتے ہیکہ” یہ نام نہاد انقلابی لوگ ہیں جو قبائلیت کے خلاف بظاہر بولتے تو ہیں مگر نواب بگٹی، سردار مینگل اور سردار عارف حسنی کے اتحادی ہیں۔ یہ نام نہاد انقلابی موقع پرست لوگ ہیں جو بس اصلاح پسند، عوام دشمن اور قوم دشمن، پنجابی استحصالی شاؤنزم ، نوازشریف اور ملاؤں کے اتحادی اور ساتھی ہیں”۔
سوال یہ ہیکہ أیا میر بزنجو درست تھے یا پھر منظور گچھکی اور سردار عارف محمد حسنی اور بی این وائ ایم؟۔ ڈاکٹر کہور بلوچ صحیح تھے یا پھر ڈاکٹر یاسین صاحب ؟۔ یا پھر کسان مزدور پارٹی والے؟۔ کیونکہ اج یہ سب اکھٹے ہیں یا پھر سیاسی اتحادی ہیں۔

تاریخ گواہ ہے بزنجو شیخ مجیب کے پاس فوج کا نمائندہ بن کے گیا تھا، مگر پھر بھی اس کے ماننے والے انھیں سیاسی اور جمہوریت پسند کہتے ہیں ۔ ان کے بقایا جات أج بھی انھیں کے فکر و فلسفے پر قائم ہیں، جو باہر بیٹھے بلوچوں کے پاس اسی پنجابی شاؤنسٹ اور فوج کا پیغام لیکر گئے اور پھر بھی اپنے أپ کو سیاست دان، جمہوریت پسند اور غیر جانبدار کہتے ہیں۔

بلوچ روایات ہوں یا پھر سیاسی روایات ، پیغام لانے اور لیجانے والے کو کچھ اور کہا جاہیگا مگر سیاست دان اور قوم پرست ہرگز نہیں کہا جائے گا۔

ان کی لاتعلقی کے حوالے سے صورت خان مری لکھتے ہیکہ مشرف دور میں گودار سے ایک ایم پی اے منتخب ہوا تو انھیں کوئٹہ کینٹ بلا کر “مسلم لیگ ق” میں شامل ہونے کا کہا گیا تو انھوں نے انکار کرتے ہوئے کہا یہ ” این پی” والے اس کا جینا حرام کردینگے تو ایک شیشے سے پردہ ہٹایا گیا جہاں کالے شیشے کے دوسری طرف ڈاکٹرحئ اور ڈاکٹر مالک بلوچ بیٹھے ہوئے تھے، تو اس ایم پی اے کو کہا گیا یہ تو خود ادھر حاضری دینے أتے ہیں اور تم ان سے ڈرتے ہو۔

نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ سویلین بھرتی کا سب سے موثر ادارہ ہوتا ہے ، اس میں شامل ہونے والے لوگ ریاست کے انتہائی قابل بھروسہ لوگ ہوتے ہیں جن کے زمہ ہر جگہ ریاست کا بیانیہ بیان کرنا اور اس کا دفاع کرنے ہوتا ہے۔ این پی کی قیادت اس ورکشاپ کے ہر سیشن کا حصہ ہوتے ہیں، بلکہ “بی ٹی ٹی اور بلوچستان وائسز” ان کے بغیر ادھورا تصور کیے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں کور کمانڈر بلوچستان نے طلبہ سے خطاب میں اس حوالے سے خود ہی بہت کچھ کہا تھا۔
یا تو ہمارے لوگوں کے حافظے کمزور ہیں یا پھر اب انھیں اہمیت ہی نہیں دیتے۔ مشرف نے تو انھیں اپنا منہ بولا بیٹا تک کہا تھا.

بقول ایک دوست کے کچھ دن پہلے وہ کوئٹہ میں ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے جہاں این پی کے چند کارکنان أکر پاس والے ٹیبل پر بیٹھ گئے۔ باتوں باتوں میں انھوں نے کہاکہ این پی کی موجودہ سیکریٹری جنرل اور بلوچستان کے صدر چین کے صدر کے خصوصی دعوت پر چین گئے ہیں اور اس دورے کا مقصد بلوچستان میں چین کے مفادات کا تحفظ اور دفاع کرنا ہے۔ ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ ان کا یہ نہ اولی دورہ ہے اور نہ اخری۔

مزید ان کا یہ کہنا تھا کہ این پی ریاست کے لئے بہترین أپشن ہے اور اسٹیبلشمنٹ سے اقتدار میں حصہ مانگ رہے ہیں۔ اور کایہ بھی کہنا ہیکہ وہ اگر اقتدار میں ہوتے تو نہ گوادر دھرنا ہونے دیتے اور نہ ہی “بی وائ سی” بنتی اور نہ انھیں اتنی پزیرائی ملتی اور یعی حق دو تحریک کا اسٹیبلشمنٹ کے لئے پیغام ہے۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ اس سب کا ملبہ ان دونوں قوتوں پر ڈال رہی ہے، اور چین یاترا کا مقصد بھی یعی تھا۔

اس کے علاوہ مزید مزاکرات میں ڈیڈھ لاک اس لیے أیا ہیکہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہیکہ این پی والے برملا اپنے سیاسی پروگرامز ، بیانات اور انٹرویوز میں بلوچ جنگجووٴں کے لئے لفظ دہشت گرد اور بیرونی ایجنٹ جیسے الفاظ استعمال کریں، مگر این پی نے فلحال ایسا کرنے سے انکار کیا ہے کہ وہ فلوقت اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے ہیں۔

خیر جان بلوچ کا حالیہ ویڈیو بیان یوں سمجھے ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ أگے أگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟۔ کیونکہ بقول ان دوستوں کے این پی کے موجودہ سیکریٹری جنرل اس سے پہلے ان کے سابقہ دو سرداروں/ ایک ایم این اے ایک ایم پی اے اس کے علبوہ اس دور کے انھیں کے منگچر کے ایک اور ایم پی اے کی ناراضگی کے بعد اس وقت تو سینٹر بنائے گئے تھے البتہ اب انھیں اور موجودہ صوبائ صدر کو اپنے بلبوتے پر خود کو ثابت کرنا ہوگا کہ “این پی” غیر جانبدار ہے اور فکر بزنجو پر قائم ہے۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *