قاضی بزات خود ایک فلسفہ ہے، ایسے درویش صفت انسان کو مقبوضہ سرزمین کے جبر تلے پسماندہ لوگ آسانی سے سمجھ نہیں سکتے، اور ہمارا سب سے بڑا المیہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنے عظیم انسانوں کو پہچاننے میں دیر کرتے ہیں۔
قاضی امان بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقہ آواران ماشی سے تعلق رکھتے ہیں۔ قاضی علم کا ایک سمندر ہے، جسکی کی گہرائی کی کوئی حد نہیں۔
جسطرح سمندر کو سمجھنا آسان نہیں اسی طرح قاضی صاحب کو سمجھنا ہم جیسے کم علم اور کم فہم لوگ آسانی سے سمجھ نہیں پا سکتے۔
قاضی صاحب کی صحبت شہید واجہ غلام محمد، جیسے عظیم رہنماؤں اور دانشوروں کے ساتھ ہوئی ہے جن میں زیادہ تر ہم نشین وقت کے ظالم اور جابروں کے ہاتھوں جام شہادت نوش پائے ہیں یا علاقہ بدر ہو چکے ہیں۔
آج بھی قاضی صاحب اپنے فکری اور نظریاتی ساتھیوں کو اپنے درمیان نہ دیکھتے ہوئے خیالات کی گہرائیوں میں پرانے یادوں کو کھوج کر انتہائی تجسس کی کیفیت میں مبتلا ہوکر بہت پریشان رہتے ہیں۔
گاؤں کو لوگ اکثر کہتے ہیں کہ قاضی صاحب آج کل بہت زیادہ افسردہ ہیں لیکن آج تک ان میں کسی کو آپکی پریشانی اور افسردگی کے اسباب معلوم نہیں، کیونکہ غلام سماج میں نوآبادیاتی اثرات لوگوں کےسمجھنے اقر سوچنے کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں اس لئے قاضی صاحب کو آج تک ہم سمجھ نہیں سکے۔
قوم اور وطن پرستی کے مختلف Definition ہیں لیکن قاضی صاحب اپنی قوم اور زمین کو مختلف انداز میں بیان کرتا ہے، دل کرتا ہے کہ قاضی کو بار بار سنوں۔ قاضی صاحب کی خون کے رگ رگوں میں بلوچ قوم اور بلوچستان دوڑ رہا ہے۔ جب بھی میں کراچی میں جاتا ہوں تو قاضی صاحب سب سے پہلے اپنے گاؤں اور علاقے کے ایک ایک فرد کے بارے میں پوچھتا ہے کہ علاقے کے حالات کیسے ہیں، لوگ تو اپنی جگہ قاضی کو اپنے گاؤں کے درخت بھی بہت عزیز ہیں۔ قاضی جب افسردہ رہتا ہے تو مجھے کہتا ہے کہ اگر اس وقت میں ہَڑّگی کَہُور (ماشی کے کھیتوں میں ایک پرانی درخت کا نام ہے) کے نیچے بیٹھ کر اپنے سر زمین کے پہاڑوں کی طرف آنے والی ہواؤں کی خوشبو سے سانس بھر لیتا تو شاید میرا ڈپریشن Depression ختم ہو کر کہیں بکھر جاتا۔ کراچی بلوچوں کو سب سے بڑا شہر ہے، اپنا ہے لیکن ماشی کے (کہُور ءِ بُن) جامع مسجد کے سامنے بیٹھ کر اپنے لوگوں سے گپ شپ لگانا وقت کے پہیوں کو اسطرح تیز گھماتی ہے کہ آنکھ جھپکتے ہی دن رات ہوتی ہے پتہ نہیں چلتا دن رات کس طرح جلد گزر جاتے ہیں۔
آواران کے خوفناک صورتحال میں اکثر مغرب کے بعد علاقہ سُن سان رہتا تھا، تو اس صورتحال میں قاضی صاحب ہمیں یہ کہہ کر ہماری حوصلہ افزائی کرتا کہ ان اغیار دہشت گردوں کو گاؤں کے جِن شَلّی خود بھگا دینے کیلئے کافی ہے۔ (شَلّی ماشی کے ایک جِن کا نام ہے بچپن میں ہمیں اکثر ماں یہ کہہ کر خاموش کرا دیتے کہ روئیں مت، وگرنہ شَلّی آ کر آپ کو لے جاتی ہے، بقول بوڑھوں کے شلّی کا مسکن واجہ علی جان کے گھر کے قریب پہاڈی میں ہے)۔ شَلّی ماشی کے گلیوں کا حصار ہے، اگر کوئی اغیار قدم رکھے تو شَلّی انکے پاؤں کو کاٹنے کیلئے خود کافی ہے ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
قاضی صاحب اکثر کہتا ہے ماشی کے لوگوں کی بدحالی اور پسماندگی کو دیکھ کر دل نہیں کرتا کہ وہاں جاؤں کیونکہ وہاں کے لوگ اس جدید ترقی یافتہ دور میں آج بھی اپنی پسماندگی، بدحالی اور غلامی پر نازاں ہیں انہیں اپنی غلامی کا ادراک ہی نہیں، وہاں کے اشرافیہ اور امیر لوگ وقت کے ظالم اور جابروں کے معاون کار بن چکے ہیں، غریبوں کو جینے کا کوئی حق نہیں دیا جاتا۔
مرحوم سراج نور جو کہ انتہائی ڈپریشن کا شکار تھا، کے بارے میں قاضی صاحب دن میں دو تین مرتبہ ضرور زکر کرکے کہتا ہے کہ ”سراج نور عزت اور محبت کا پُجاری تھا لیکن اس غلام سماج کے اندر انکو وہ عزت اور محبت دینا چاہئے تھا وہ نہیں مل سکا جسکی وجہ سے وہ دل برداشتہ ہو کر کبھی جانبر نہیں ہوسکا اور وہ اپنے گاؤں سے ہمیشہ کیلئے کوچ کر گیا۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کی خوشیوں کو معاشرے کی غلامانہ زہنیت نے دبوج لی ہیں“۔
جب مجھے خضدار میں ریاستی عقوب خانوں اور تارچر سیل سے نکال کر لایا گیا تو اس وقت میری زخموں کو دیکھ کر عمر رسیدہ والد بہت پریشان تھا۔ لیکن یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے والد صاحب نے قاضی کفایت اللہ صاحب کے گھر لے جایا گیا جہاں قاضی امان اللہ اور زاہد بارکزئی موجود تھے۔ امان قاضی نے مجھے حوصلہ دی اور کہنے لگا کہ اس بات پر پریشان نہیں ہونا ہے کہ تمہارے کپڑوں کو اتار کر تمہیں مختلف قسم کی ازیتیں دی گئی ہیں بلکہ یہ ازیتیں آپ کو مزید مستحکم اور مضبوط بنادیں گے۔ قوم کیلئے بہت زیادہ قربانیاں دینے پڑیں گے، ابھی تو یہ ایک آغاز ہے۔ میرے عمر رسیدہ والد صاحب کی پریشانی کو دیکھ کر امان قاضی نے انہیں تسلّی دے کر کہنے لگا کہ آپ کا بیٹا کسی جرم کی پاداش میں ریاستی عقوبت خانوں میں تشدد برداشت نہیں کی ہے بلکہ یہ سزا انکو حق اور سچ کے راستے کی عوض دی گئی ہیں ان میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں دو تین ہفتوں میں یہ زخم ٹھیک ہو جائیں گے۔
قاضی صاحب ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے دلاسہ دینے لگا اور سرسوں کے تیل اور ہلدی سے میرے زخموں پر مرہم کرتا رہا۔ جس سے میرا ڈوبی ہوئی حوصلہ پھر سے بلند رہا، اور آج بھی قاضی جیسے درویش صفت انسان ہمارے حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
آج کے کچھ نوجوان تعلیم حاصل کرکے چھوٹی سی نوکری حاصل کرنے کو اپنی کامیابی سمجھ کر فخر کرتے ہیں۔ انہیں اپنے قوم کی پسماندگی کا کوئی فکر نہیں۔ بیوروکریٹس زہنیت نے ہمارے کچھ نادان تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اسطرح اپنے زنجیر میں جکڑھ لی ہیں کہ وہ اپنی قوم کی مستقبل سے بیگانہ ہوکر دن رات مخصوص کتابوں کو رٹ کر اس نظام کی بنیادوں مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس نے ہماری وجود اور شناخت کو مسخ کی ہے۔ لیکن میں قاضی امان صاحب کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جب انکے والد صاحب قاضی تھے تو اس وقت انکو ”تحصیلدار“ کے پوسٹ کی پیشکش کی گئی تھی لیکن قاضی صاحب نے تحصلیدار کے پوسٹ حاصل کرنے کا اس وجہ سے انکار کیا تھا کہ میں اپنی قوم کو اپنے ہاتھوں سے تکلیف نہیں دینا چاہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ میں اپنے ہاتھوں سے اپنے مظلوم قوم کا استحصال کروں۔ قاضی صاحب آج کے نوجوانوں کیلئے ایک زندہ مثال بن چکی ہے۔ وہ کبھی فیم کا بھوکا نہیں رہا ہے بلکہ ہر وقت خاموشی سے اپنے حصّے کی زمہ داری نبہاتا آ رہا ہے۔
آج چار ٹکے کے پولیس اہلکاروں کو پتہ نہیں کہ وہ کس شخصیت کو گھسیٹتے ہوئے ہتھکڑی لگا کر اپنی گاڈی میں بٹھا کر عقوبت خانوں میں لے جا رہے ہیں۔ قاضی محض ایک فرد نہیں بلکہ وہ اپنے زات کے اندر ایک ادارہ ہے، ایک شعور ہے۔ علم و شعور کی روشنی کو زندان کی تاریکیاں ختم نہیں کرسکتی بلکہ یہ روشنی اب بلوچستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف مظلوم اور محکوم عوام کو علم و شعور سے روشناس کر چکی ہے۔ آج قومی تحریک سرداروں، نوابوں اور جاگیرداروں کے ہاتھوں سے نکل کر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین جیسے عظیم رہنماؤں کے ہاتھوں میں آچکی ہے۔ بلوچ آج جھوٹے ایف آر اور ہتکڑیوں سے ڈرنے والے نہیں۔
قاضی صاحب ایک فکر اور سوچ بن چکا ہے۔
تو بہ کن کَھر من ءَ مِھر بِہ بیت
چْوش نہ بیت، چوش نہ بیت
Add comment