آج سے تقریبا پچیس سال قبل، جب میں نے نان پرافٹ آرگنائزیشنز یعنی این جی اوز کے بارے میں سنا تو دیگر نظریاتی دوستوں کو دیکھ کر مجھے بھی یہ خواہش ہوئی کہ میں بلوچستان کے ڈویلپمنٹ سیکٹر میں کام کروں اور مسائل کو حل کرنے کے لئیے اداروں کے ساتھ جُڑ جاؤں۔

یوں میں نے چھ سال تک پاکستان کی لیڈنگ این جی اوز کے ساتھ کام کیا۔ اس عرصے میں جو کچھ مجھ پر کھلا وہ نہایت بھیانک تھا۔

پہلی بار جب 2003 میں میرا کوہلو جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ جس تںظیم کے ساتھ ہم نے میٹنگ رکھی تھی اس کے سیکریٹری جنرل کی چھوٹی بہن گزشتہ رات ملیریا سے فوت ہوگئی میرے لئیے یہ بہت غمناک اور حیرت انگیز بات تھی کہ اکیسویں صدی میں ملیریا سے ہمارے بچے مر جاتے ہیں مگر اسکے بعد اس سے بھی زیادہ بدرنگ مسائل اور دکھ دیکھنے کو ملے۔

یو این اور دیگر اداروں کی طرف سے تعلیم اور صحت کے محکموں میں جو سروے ہوتے ھم انکی رپورٹس پڑھتے آرٹیکلز پڑھتے اور بحث مباحثے ہوتے۔ حقائق یہ بتاتے تھے کہ تعلیم ہو ماحولیات ہو صحت ہو یا دیگر فیلڈز ہر طرح سے ہر سمت سے بلوچستان کی عوام بےحد سفاکیت کا شکار ہے۔۔ پینے کے صاف پانی کا مسئلہ ہو، سکولوں کی ناقص کارکردگی کا مسئلہ ہو اساتذہ کی حاضری اور انکے تربیتی پروگرامز کا فقدان ہو، صحت کے وسائل کی قلت ہو، ہیلتھ سینٹرز کی کارکردگی ہو یا ڈاکٹرز کی عدم موجودگی گویا ہر طرف موت کی سوداگری قائم تھی۔۔ پھر این جی اوز کو جو فنڈ ملتا وہ زیادہ تر ایڈووکیسی کیمپینز کے لئیے مختص ہوتا تھا۔۔ زیارت اور قلات میں گیس کے لئیے وہاں کے سول سوسائٹی نیٹ ورکس نے ایڈووکیسی کی اور پالیسی بنانے والے اداروں تک اپنی آواز پہنچائی ۔

مگر ڈونر فنڈڈ ایجنڈا پر زور و شور سے زیادہ کام ہوتا اور دوسری طرف حکومتی نمائندے ٹال مٹول سے کام لے کر این جی اوز کو ٹرخا دیا کرتے جیسے کہ ایک ڈرامائی فضا قائم تھی حکومتی نمائندوں، محکمہ صحت، این جی اوز اور سیاسی تنظیموں نے طے کر رکھا تھا کونسے مسئلے کتنے اور کب تک حل کرکے ڈویلپمنٹ کے نام پر اجارہ داری قائم رکھی جائے۔

حالات بگڑتے گئے این جی اوز پر پابندیاں لگیں اور یوں انٹرنیشل ڈونرز کے فنڈ سرکار کی منشا پر سیدھے سرکار کو ملنے لگے۔

یوں این جی اوز میں موجود نظریاتی لوگوں کی جو سرکاری کرپشن پر تھوڑی بہت سنجیدہ۔نظر اور آواز تھی وہ بھی نہ رہی۔

تمام مسائل میں سب سے اہم مسئلہ اندورن بلوچستان کی عورتوں کے mortality ratio کے حوالے سے رہا یعنی ماں کا بچے کی پیدائش پر یا حاملہ حالت میں مرجانا ۔یو این کی رپورٹ کے مطابق ایشیا میں
Child Morbidity اور meternal morrtality ratio سب سے زیادہ بلوچستان میں پایا جاتا ہے۔

یہاں بنیادی ہیلتھ سینٹرز اور گائنی وارڈز کی کارکردگی نہائت تشویشناک ہے طبی سہولیات موجود نہیں ہیں اور روزانہ عورتیں سینکڑوں کی تعداد میں موت کی نذر ہو جاتی ہیں۔

یو این کے پچھلے دو سالوں کے اعداد و شمار دیکھئے۔

Maternal Mortality Ratio (MMR) in Balochistan ~ 298 deaths per 100,000 live births From provincial health department, quoted in 2024-2025 local media.
This is an estimate; likely under-reporting in remote areas. UN data more commonly gives national MMR, but this is the best recent provincial estimate.
Pakistan National MMR ~ 155 per 100,000 live births UN / WHO / Pakistan data for 2024. Helps for comparison; shows that Balochistan is considerably worse than the national average.
Neonatal Mortality Rate (NMR) in Balochistan ~ 34 per 1,000 live births From Dawn, quoting Newborn & Child Health programme in Balochistan, around 2024. Infant mortality & neonatal are somewhat more reliably tracked, but still with potential undercounting.
Infant Mortality Rate (IMR) in Balochistan ~ 66 per 1,000 live births Same source as above: provincial MNCH programme.

بلوچستان میں موجودہ حالات اور دیگر وجوہات کے باعث یہ اعداد و شمار مکمل نہیں ہیں کیونکہ بےشمار علاقوں میں سروے ممکن نہیں تھا۔

یہ اندرون کی کہانی ہے جہاں بلوچ اور پشتون عورتیں کسی ہیلتھ سینٹر اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے یا وہاں سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے دم توڑ دیتی ہیں, انکے گھر والے انہیں بڑے شہروں تک لے جانے کے قابل نہیں ہوتے۔

لیکن میں آپ لوگوں کو ان مظلوم ماؤں کی سرگزشت سنا رہی ہوں جو اندرون سے سفر کر کے بلوچستان کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال بی ایم سی کے گائنی وارڈ میں بری حالت میں لائی جاتی ہیں اور یہاں المیہ ہے گائنی وارڈ ایک بدںودار کچرہ دان کے علاوہ کچھ نہیں، نقل سے پاس ہونے والی، سفارشی لیڈی ڈاکٹرز کے ساتھ کچھ قصاب صفت، جان بڈ خالائیں خود ہلنے کا نام نہیں لیتیں اور ایکدوسرے سے توقع رکھتیں ہیں کہ فلاں اٹھے اور کام کرے۔

کل رات میرے سامنے سٹریچر پر ایک حاملہ عورت اندرونی بلوچستان سے ایمرجنسی میں لائی گئی اسکے بیٹے اور بھائیوں کو گائنی وارڈ سے نکالا گیا کہ ہم خود مریضہ کو لے جائیں گے مردوں کا داخلہ ممنوع ہے،، غریب بیٹا اور بھائی ڈاکٹر کو مسیحا سمجھ کر مریضہ کو وارڈ میں چھوڑ گئے۔۔ مگر گھنٹے تک وہ مریضہ وہاں ںےآسرا پڑی رہی نہ پہیوں والا سٹریچر مل رہا تھا نہ ویل چئیر مل رہی تھی نہ مسیحائی کرنے والی ڈاکٹر۔ دوسری طرف یہ سختی تھی کہ بھائی اور بیٹے کو بھی اندر نہ آنے دیا جائے اور وہاں کوئی بھی اس عورت کی زمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا۔

لیڈی ڈاکٹرز کے ہاتھوں میں موبائل فون موجود تھے ، خوش گپیاں تھیں، ایمرجنسی کو نہایت غیر دلچسپی سے روٹین کا واقعہ سمجھ کر مریضہ کو سرسری لیا گیا، ایک گھنٹے تک یہ طئے نہیں ہورہا تھا کہ کس طرح روم تک مریضہ کو پہنچایا جائے۔ پھر وہاں موجود سٹاف کی چار عورتوں نے مشکل سے کھینچا تانی کر کے اندر کمرے تک مریضہ کو پہنچایا اور جب ڈاکٹر صاحبہ آئیں تو وہ مظلوم عورت دم توڑ چکی تھی اور آٹھ ماہ کا بچہ بھی ماں کے ساتھ ہی چلا گیا تھا۔

(یہ برباد حالت ہے بلوچستان کے سب سے بڑے ہسپتال کے گائنی وارڈ کی اور اسکے ماہر ڈاکٹرز کی) ھم اندرون بلوچستان کے حالات پر کیا ماتم کریں جبکہ کوئٹہ شہر کے بڑے ہسپتالوں میں مریضوں کی قبر کھودنے کے لئیے ڈاکٹرز اور سٹاف کی شکل میں گورکن بیٹھے ہیں۔

ہماری قومی بےبسی الگ ہے مگر عورت ہونے کے باعث یہ بےبسی دوہری ہوجاتی ہے۔

اتنے تکلیف دہ حالات میں اتنی بیماریوں اور مصائب کے باوجود کبھی کلچر، کبھی مذھب، کبھی قوم کی آبادی بڑھانے کے نام پر عورت کو بچہ پیدا کرنے کی فیکٹری بنا دیا جاتا ہے، مرحوم مریضہ کے ساتھ جو خاتون تھی اس نے بتایا کہ “ن بی بی” کا یہ نواں بچہ ہے۔

لڑکے اپنی ماؤں بہنوں کو صحت کے نام پر بنی قتل گاھوں میں مرتا دیکھتے ہیں اور پھر بھی غربت کے باوجود ، خوراک کی کمی اور جسمانی کمزوریوں بیماریوں کے باوجود ایک عورت کو دس بارہ بچے پیدا کرنے کی ذلت دی جاتی ہے یہ بہت عام اور ہر گھر کی صورتحال ہے کہ عورت کو گائے بھینس تصور کیا جاتا ہے۔

کبھی سوچتی ہوں کہ اگر مردوں کو بچہ پیدا کرنا پڑتا تو انسانی نسل کب کی ختم ہوچکی ہوتی۔ جس ہستی نے اپنی محبت اور گرمائش سے انسانی نسل کو تحفظ دیا اسے سنبھالا، کیا وہ یہ حق نہیں رکھتی کہ اسے عزت دی جائے اس کا خیال رکھا جائے اس سے محبت کی جائے اسے آنکھوں پر رکھا جائے۔

ایک غلام قوم کا اپنے آقاوں سے حقوق مانگنا گڑگڑانا امید رکھنا حماقت ہے، لیکن کیا غلام قوم اتنی سمجھ بوجھ بھی نہیں رکھتی کہ اپنے گوسٹ ڈاکٹرز سے حساب لے جو اپنے علاقوں میں موجود ہی نہیں، ڈاکٹرز کی قابلیت پر کوئی شک نہیں لیکن انکی حساسیت اور انسانیت قابل ِ ماتم ہے، کیا ھم اپنے ہی لوگوں کا گریبان نہیں پکڑ سکتے اور کیا یہ ممکن نہیں کہ ہر فرد اپنے گھر کی عورتوں کی صحت کا ذمہ دار خود بھی ہو ؟

برق گرنی چاہئے پتھر برسنے چاہئیں
اے ابابیلو یہاں کنکر برسنے چاہئیں

(ساتو)

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *