درد بھری صداہیں، چیخ و پُکار کی آوازیں، لہو سے لت پت لاشیں، لہو سے بہتا دریا، ٹپکتے آنسوں، زنجیروں سے بندھے پاؤں، دکھ اور درد سے ڈھکے اُداس چہرے، اجتماعی قبریں،مسخ شدہ لاشیں، ظلم و جبر کی کڑوے گھونٹ نگلنے والے۔ کون ہیں یہ؟ کون ہیں جو خون کی بہتی دریا میں ڈوب رہیں ہیں؟ یہ کون ہیں جن کی لاشیں بارش کے قطروں کی طرح زمین پر گِر رہی ہیں؟ یہ کون ہیں جن کے آنسوں موتیوں کی مانند بکھر رہی ہیں؟ یہ کون ہیں؟ کہاں سے تعلق ہیں ان کا؟

لاوارث!

لاوارث ہیں، یہ لاوارث بلوچ ہیں، ان لاوارثوں کا تعلق بھی بدنصیب بلوچستان سے ہے۔ یہ چیخ و پُکار بھی ان لاوارثوں کی ہیں،یہ لاشیں بھی انہی کی ہیں،یہی لاوارث ہیں جو زنجیروں میں جھکڑے ہوہے ہیں۔یہی لوارث ہی انسان نما درندوں کے ظلم سہہ رہیں ہیں۔یہی لاوارث ہی ظلم و ستم کا شکار ہیں۔یہ ہیں لاوارث بلوچ اور تاریکیوں میں ڈوبی ہوہی بلوچستان کے فرزند۔

فریادِ بلوچستان!۔

آج بھی بلوچستان آہ و فغاں اور فریادیں کرتا ہے۔آج بھی بلوچستان وقت کے ان ظالم و سفاک درندہ صفت حکمرانوں سے اپنی اور اپنے باشندوں کی نجات چاہتا ہے۔آج بھی بلوچستان اپنے اُن عظیم فرزندوں کو پکارتا ہےجو عدل و انصاف کی قندیلیں پوری دنیا میں جلانے کی کوششیں کر رہے تھے مگر وقت کے وقت کے ان سفاک درندوں نے ان کو تاریک راہوں میں مار گرا یا۔ آج بھی بلوچستان اُن عظیم ہستیوں کو یاد کرتا ہے جو اندھیری دنیا میں انصاف کے لیے نالے بلند کرتے تھیں۔ آج بھی بلوچستان بابا خیر بخش مری،نواب اکبر خان بگٹی،بابا نوروز خان اور یوسف عزیز مگسی کو پکارتا ہے۔آج بھی بلوچستان کارل مارکس،فیڈرک ہینگلز،ولادیمر لینن،ڈاکٹر چی گویر،فیدرل کاسترو اور بھگت سنگھ جیسے سوشلسٹوں و کمیونسٹس کو چیختے چلاتے ہوہے پکارتا ہے۔کیونکہ آج بھی بلوچستان ناانصافی کے دلدل میں گِرا ہوا ہے۔لوگ زنجیرِ غلامی کو توڑنا چاہتے ہیں اور ایک آزاد پھنچی کی طرح رہنا چاہتے ہیں۔اپنے ضمیر کی آزادی چاہتے ہیں اور نوآباروں کی غیر تسلط اپنے ملکیت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس تمام تر نجی ملکیت کا خاتمہ کرکے اشتراکی ملکیت کو سرِ فہرست رکھنا چاہتے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اُکھاڈ پھینکنا چاہتے ہیں اور کمیونزم کے جھنڈے کے ساہے تلے ایک منصفانہ سماجی نظام کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔
پر،پر یہاں تو آوازیں دباہی جاتی ہے۔حق مانگنے والے کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔آزاد خیال کو دنیا سے ہی آزادی دی جاتی ہے۔

ماہیں،بہنیں،بھاہی،بیٹیاں،بیویاں اور بوڑھے باپ کہاں جاہیں جن کی فریادیں،جن کے مطالبے زیرِ نظر ہی نہیں ہیں۔

ایک ماں اپنے ہوش و حواس اپنے بیٹے کی جبری گمشدگی کے ساتھ کھو بیٹھتی ہے۔ماں کی آنکھوں کی روشنی بیٹے کی طرح جبراً لاپتہ کیا جاتا ہے۔یہ ماں ایک زندہ لاش کی مانند اپنے موت کو تکتی رہتی ہے لیکن بس اسی آسرے پہ زندہ ہے کہ اسکا بیٹا لوٹ کے آہے گا۔اسی امید پہ دن رات بیٹے کی بازیابی کے لیے جہدوجہد کرتی ہے۔اسی امید پہ مزاحمت کرتی ہے کہ اسکا بیٹا آہیگا۔

اس بہن کی چیخ و پکار کون سنے گا جو کہتی ہے کہ میرا بھاہی بے گناہ ہے۔میرا بھاہی معصوم ہے۔وہی بہن جو بھاہی کا سہرا لیے پھرتی تھی اب کفن ہاتھوں میں تماہے بٹکتی رہتی ہے۔ہر دن ایک ہی سوال پوچھتی ہے میرا محافظ کہاں ہے؟کیا وہ زندہ ہے؟زندہ نہیں تو لاش کہاں ہے؟بس اسی امید پہ سڑکوں اور چوکیوں پر ہراساں ہوتے ہے کہ انکا بھاہی بازیاب ہوکے آہیگا۔انکا محافظ آہیگا اور انہیں تحفظ دے گا۔

بھاہی سے اسکا دوست اور باپ سے اسکے آفتابِ زیست کا سہارا ہی چھین لیا۔باپ کا کندھا ہی توڈ ڈالا۔باپ کا عصا ہی چھین لیا۔

اس بیٹی پر کیا گزرتا ہوگا جو خود کہتی ہے کہ میرے والد اگر مر گئے ہے تو اسکی لاش دے دے اگر زندہ ہے تو اسے اسکی جرم کی سزا ہمارے سامنے دیں دے بلکہ ہمیں ہی دیں دے تا کہ ہم ہی پانسی پہ لٹکا سکے مگر ایسے اذیت نہ دے ہمیں۔ایک بیٹی کا دکھ کون سمجھے گا جو باپ کے زندہ ہوتے ہوہے بھی یتیموں جیسی زندگی جی رہی ہے۔

ان کی فریادیں کسی کے کانوں تک پہنچتی کیوں نہیں ہے؟کیوں لوگ اندھے،گونگے اور بہرے بن کر پھر رہے ہیں۔کوہی نہیں دیکھتا کہ انکی زندگی کتنی کٹھن ہے۔کوہی نہیں دیکھتا کہ یہ کتنے قرب سے گزر رہیں ہیں۔کوہی نہیں سنتا انکی آہ و فریاد۔کوہی نہیںاس عورت کو کون پوچھے گا جو بیوہ نہ ہوتے ہوہے بھی بیوا ہے۔بیواؤں جیسی زندگی گزار رہی ہے جو ہر دن یہ کہتی ہے کہ کوہی مجھے یہ تو بتا ہے کہ میں اپنے شوہر کی بیوی بن کر جیو یا بیوا بن کر۔
میرے بچوں کے سر پر باپ کا سایہ ہے یا یتیم ہیں۔

اندھے،گونگے اور بہروں کے شہر میں ترستی منتظر آنکھیں،اداس چہرے اور عرش ہلا دینے والی فریاد!!!۔

بھاہی،بیٹا،باپ اور شوہر تو چھین لیا اور ایک ہی سہارا باقی ہے جس کو چھیننے کی سر توڑ کوششیں کی جارہی ہے اور کامیابیاں بھی ایک حد تک حاصل کر لی۔حیات بلوچ جو قلم کا شیداء تھا اس سے نہ صرف قلم چھینا بلکہ اسکی معصوم زندگی بھی اس سے بڑی بے دردی سے چھین لی۔شبیر بلوچ،زاکر مجید،ڈاکٹر دین محمد اور راشد حسین جیسے کئی قلم کار اذیتوں کا شکار ہیں اور عقوبت خانوں کی نزر بن گئے۔شہداد اور احسان جیسے کتابی کیڑوں کے سینے میں گھولیاں سجا دی۔

یوسف عزیز علی خان مگسی کہتے ہے کہ اگر ہم
سورج کی روشنی آنکھوں میں لے سکتے ہیں تو اس میں ہمارا کیا قصور؟اور اگر آپ صرف تاریکیوں میں ہی آنکھیں کھولنے کے عادی ہوگئے ہیں تو ہمارا کیا جرم؟
ہمارا کیا قصور اگر ہمارا کتابوں سے لگاؤ ہیں؟ہمارا کیا جرم ہے اگر ہم نے قلم پکڑنا سیکھ لیا؟
ہمارا کیا قصور ہے کہ اگر آپ ہماری طرح قلمکار نہیں بنے؟ہمارا کیا جرم ہیں؟

یہ اسکول،یہ کالجز اور یونیورسٹیز جسے ہم تعلیمی ادارے کہتے پھرتے ہیں چونکہ کسی چوکی،کیمپ اور ہیڈکوارٹرز سے کم نہیں لگتی ہیں۔طالب علموں کو ہراساں کرکے،ان پر جبر کرکے تعلیمی اداروں سے دھکّا دے کر نکالا جارہا ہیں۔دوسری جانب طلباء آہ و زاری کر رہیں ہیں،منت سماجتیں کر رہیں ہیں کہ خدارا ہمیں ہمارے خوابوں کو تعبیر کرنے دے،خدارا ہمارے ہاتھوں سے سیاہی کی خوشبوں و رنگ نہ چھینے،خدارا ہمیں ہمارے کتابوں سے جدا نہ کرے،خدارا ہمیں کتابوں کی ڈھیر میں رہنے دیں۔خدارا ہم پر یہ ظلم نہ کریں،خدارا۔

طالب علم جو ہزاروں خواب دیکھتے ہیں نوآبادکار اس سے بھی انہیں محروم کرتا ہے۔وساہل اور زمین پر استحصال تو دور کی بات یہاں تک کہ لائبریریوں پر قبضہ جماہیں بھیٹے ہیں۔حال ہی میں کوہلو میں طلباء سے ان کا واحد لائبریری چھینا گیا۔سامراج اور شدت پسند حرص و لالچ کے ایسے اندھےگہرے کنویں میں گرے ہوہے ہیں کہ ان کے سامنے کتابوں کی ایک تانبے کے برابر بھی اہمیت نہیں ہیں۔طلباء جو کتابوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں یہ ظالم ان سے کتابیں چھین کر اپنے گندے پاؤں کے نیچے رکھ کر کچلتے ہیں اور طلباء ان کی تحفظ میں جان گنوا بیٹھتے ہیں۔قلم اور کتابوں سے دور رہ ان کی حالت ایسے ہوتی ہے جیسے مجنون کا لیلہ کی جداہی میں ہوا۔لیکن فرشِ خدا کو ان کو جنون کی حالت میں دیکھتے ہوہے بھی ترس نہیں آتی۔ان کی تڑپ اور فریاد جو جبرائیل اپنی کانوں میں سنتے ہیں ان کی یہی فریادیں فرشِ خدا تک پنچتی نہیں۔

یہاں انسانیت نام کی تو کوہی چیز ہی نہیں ہے۔جس معاشرے میں ایک انسان ہونے کے ناطے انصاف چاہیئے وہاں تو کوہی انسان ہے ہی نہیں۔جس ملک میں آزادی کا حق چاہتے ہیں وہاں تو آزادی ہے ہی نہیں۔جس عدالتوں میں اپنے حقوق کے خاطر اپنی دکھ بھری داستانیں سناتے ہیں وہاں تو انصاف ہے ہی نہیں۔جن کو خدا کا واستہ دے کر فریادیں کرتے ہیں وہ تو خود خدا بنے بیٹھے ہے۔جو اسلامی شریعت کے مطابق ملک چلانے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ تو خود کفر کر رہیں ہیں۔جو آزادی کے نام پر قوم کو غلامی کے اندھیرے میں غرق کر رہیں ہیں وہ کہاں انصاف دیں گے۔
جو خود درندوں کی مانند لوگوں پر جبر کرتے ہیں وہ ہمیں کہاں انسان کا درجہ دیں گے؟جو خود ہی اپنے قوم و ملت کو ذلت و پستی کے کنارے میں لا کر نیست ونابود کر رہیں ہیں وہ کیا ہماری گلزمین کا شیرازہ بکھرنے سے روکے گے؟جو اپنی ہی حفاظت نہیں کرسکتے وہ ہمیں کیا تحفظ دیں گے؟یہ کہاں فریادیں سنے گے؟

دہائیوں سے ہمیں بلوچ ہونے کی پاداش میں یہ سب کچھ چپ چاپ سہنا پڑ رہا ہے۔ مگر اب اس تمام تر چُپی چپائی کھیل کا انت ہوگیا ہے اور اب سے ہمیں ان جابروں کے ہاتھوں ذلت و رسوائی کی بے موت مرنے سے بہتر ہے کہ سجاعت و بہادری سے ہمیں موت کو گلے لگا کر ان سفاک حکمرانوں کا مقابلہ کرتے رہنا ہوگا۔ تاکہ اس تمام تر خون آشام کھیل کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہوجائے اور ہم ایک نئے روشن دور میں حاضر ہوسکیں۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *