!!!ہمارا قصور

مہ گار ءُ بیگوا باں
مہ جَنَگ ءُ کُشگ باں
مے چے گناہ اِنت

ہمارا کیا قصور ہے؟ کوہی لاپتہ ہو تو ہم قصور وار۔ کوہی مارا جاہے تو ہم ہی قاتل ہیں۔کہیں لڑاہی ہو تو ہم مجرم۔کہیں حملہ ہو تو ہم دہشت گرد۔کہیں خون ریزی ہو تو ہم ہی ڈیتھ اسکواڈ۔کہیں بے امنی ہو تو ہم ہی فسادی۔آخر ہمارا جرم کیا ہے؟

ہر موڈ پر ہم ہی دہشتگرد،ہم ہی قاتل،ہم ہی ملزم اور ہم ہی مجرم ثابت ہوتے ہیں۔ہماری پہچان،ہمارا شناخت،ہماری زبان اور ہماری ثقافت سب مرگئے ہیں۔ہمارا مقصد تو بننے سے پہلے بکھر گیا،ہماری زندگی شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہوگئی،روشنی کی کرنوں سے کھیلنے سے قبل ہی ہم اندھیروں کے نذر بن گئے۔

آخر ہمارا قصور کیا ہے؟کس جرم کے سبب ہمیں ہتھکڑیاں پہنائی جا رہی ہے؟کیا ہم غلام ہیں؟کیا ہم ناحق ہیں؟کیا ہمیں ضمیر کی آزادی حاصل نہیں ہیں؟کیا ہمیں آزادی سے زندگی بسر کرنے کا کوئی حق نہیں؟کیا ہمیں بھی ان طالب علموں کی طرح ڈگری ہاتھ میں تھمانے کا کوہی حق نہیں؟کیا ہمیں بستہ اُٹھاہے کالج اور یونیورسٹیز میں جانے کا حق نہیں؟کیا ہمیں اساتذہ کے سوالات کے جوابات دینےکا حق نہیں جو وہ اپنے طالب علموں سے پوچھتے ہیں؟کیا ہمیں کوہی آزادی نہیں کہ ہم بولیں ہم ڈاکٹرز، انجینئیرز، وکلاء یا کمیشنرز بنے؟ کیا ہمارا کسی چیز پر کوہی حق نہیں بنتا؟ کیوں نہیں؟ یہ سب ظلم، یہ جبر، یہ ستم ،یہ اذیتیں کس لیے؟ اور یہ سب کچھ ہمارے لیے کیوں؟ آخر کیوں؟

اور ہماری خواہشات کہ ہم بھی ان خوبصورت پنچھیوں کی طرح پرواز کرنا چاہتے ہیں جو بڑی آزادی سے پنکھ پھیلاتے ہوہے آسمان کی جانب اُڑھتے ہیں۔ ہم بھی ان پھولوں کی طرح کِھلنا اور مہکنا چاہتے ہیں جو باغات میں حسین نظارہ پیش کرتی ہیں۔ہم بھی ان پانی کی لہروں کی مانند بل کھانا چاہتے ہیں جو اپنی مکمل حریتی و آزادی سے ریتوں کو چھومتی ہوہی چلی جاتی ہے۔ ہم بھی ان چاند و ستاروں کی مانند آسمان پر چمکنا اور ٹھمٹھمانا چاہتے ہیں جو اندھیری رات کو ماہتاب کرتی ہیں۔ ہم بھی ان ہواؤں کی طرح چلنا چاہتے ہیں جو دلوں کو ٹھنڈک اور سکون پہنچاتی ہے۔ ہم بھی ان بچوں کی طرح ماں کے گود میں سر رکھنا چاہتے ہیں جن کو ماں اپنی ممتا بھری پیار سے تپتپا کر سُلاتی ہے۔ ہم بھی ان بھاہیوں کی طرح اپنی بہنوں کا ہاتھ تھامنا چاہتے ہیں جو ایک دوسرے کے غم اور دُکھ کے ساتھی ہے،جن کی خوشی ایک دوسرے کے بغیر ادھوری ہے۔ہم بھی ان معصوم بچوں کی طرح اپنے والد کے ساہے میں رہنا چاہتے ہیں جو تپتی دھوپ کا مقابلہ کرتے ہوہے اپنے بچوں کو سورج کی گرمی سے بچاتا ہے۔ہم بھی ان دوستوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں جن کی ہنسی،خوشی اور مستی کو دیکھ کر آسمان کو بھی رشک آتا ہے۔ہم بھی انسان ہونے کے ناطے انسانیت کی محبت کا طلبگار ہیں۔

ہمیں وہ دن یاد آتے ہیں جب ہم بھی قلم اور کتاب اُٹھائے خوشی سے پڑھنے لکھنے بیٹھ جاتے۔ہمیں بھی وہ دن یاد آتے ہیں جب ہم دیوانوں کی طرح لائبریری کی طرف دھوڑتے تھے۔ ہمیں وہ سب دن یاد آتے ہیں۔

مارا وتی مات ءُ پِت ءِ مہر ءُ برات ءُ گہارانی کندگ گیر کایاں ـ

ہمیں وہ سب دن یاد آتے ہیں جب ہماری ماں ہر دن اس گھڑی کا انتظار کرتی تھی کہ میرا بیٹا کئی مہینوں بعد گھر کو لوٹے گا۔ میں اپنے بیٹے کو سینے سے لگاؤ گی۔ میں اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاؤگی۔وہ سب دن یاد آتے ہیں جب بہن اور بھائی اپنے اسکول سے چھٹی ہونے کا انتظار کرتے ہیں کہ کب ہماری چھٹی ہوگی ہم گھر جاہینگے اپنے بھائی کو دیکھے گے اور بھاہی ہمارے لیے کیا تحفہ لایا ہوگا۔انکی ہنسی،انکے قہقہے،ان کی چھوٹی چھوٹی خوشی وہ سب کچھ یاد آتے ہیں۔

ہر ایک وہ لمحہ یاد آتا ہے صبح سویرے اُٹھنا،بس کی طرف بھاگنا،کالج اور یونیورسٹیز جانا،پڑھ کر تھک جانا،دوستوں کے ساتھ چاہے پینا،گپ شپ کرنا یہ سب کچھ یاد آتے ہیں۔
ہر صبح اپنے ساتھ ایک نئی کہانی لے آتی تھی سورج کی ہر ایک کرن میں چہکتی ہوہی ہنسی ہوتی تھی۔پر اب ہر صبح ایک اندھیری رات ہے۔اب کب صبح،کب دن اور کب رات ہے کچھ پتہ نہیں۔کہانی تو دور کی بات اپنا شناخت ہی کھو بیٹھے ہیں۔ہمیں اپنی پہچان تک کا پتہ نہیں،کچھ خبر نہیں۔کچھ پتہ نہیں۔آخر کیوں؟؟؟ہم کس بات کی قربانی دیں؟ہم کس لیے یہ درد،یہ ظلم اور یہ اذیتیں سہے؟ہمارا جرم کیا ہے؟کیا ہم مجرم ہیں؟اتنی سزاہے کیوں؟یہ کالے کوٹھری کیوں؟یہ زنجیریں کیوں؟کیوں ہم بندشوں میں بند ہیں؟کیوں ہم سے ہماری زندگی چھین لی جا رہی ہیں؟کیوں ہمیں ہمارے پیاروں سے دور رکھا جارہا ہیں؟کیوں ہمیں اس اندھیرے میں رکھا گیا ہیں جہاں نہ کچھ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی سناہی؟بس چیخ!دردبھری چیخ،اذیتوں میں مبتلا اور کراہتے ہوہے چیخ،بس ہماری آواز اور ہماری پکار اور بس۔ہماری یہی چیخ و پکار ہمیں ہر دم اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ ہم زندہ ہیں،ہماری سانسیں چل رہی ہیں ورنہ اذیت دہندہ کی ہنسی،ان کے ہاتھوں میں ڈرِل مشین،ہتھوڑے،کیل،بندوق،چاقو،خنجر،اسلحہ اور ہتھیار کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔بس اپنی موت ہی دکھائی دیتی ہے۔

وہ آنکھیں جن میں کتابوں کا ایک ایک حروف بستہ تھا،وہ ہاتھ جن پر ہمیشہ سبز سیاہی لگا رہتا تھا،وہ زبان جس پر کتاب اور قلم کے الفاظ کے ماسواہے اور کچھ نکلتا ہی نہیں تھا آج اسی آنکھوں میں خوف،اسی ہاتھوں پر خون اور اسی زبان پر مُہر لگی ہے۔

امّاں تئ تران مارا یات کایاں .

وہ الفاظ اور وہ باتیں کیسے بھول سکتے ہیں جب بہنوں سے ہنسی،مزاق میں لڑاہی ہوتی تھی تو ماں بہنوں سے کہتی تھی نہیں مارو،تمہارا بھاہی ہے،زور سے لگے گا،اسے درد محسوس ہوگا لیکن اب کہاں ہے وہ ماں جو مزاق مزاق کی لڑاہی میں بھی ہمیں مارنے سے بچاتی تھی۔امّاں ان ظالموں کو کون کہی گا کہ نہ دو میرے بیٹے کو اذیت،مت کرو اتنا ظلم میرے بیٹے پر،اسے اتنی اذیتیں نہ دو۔کون کہے گا؟
کُجا ایں منی امّاں؟

عدالتیں!!کیا اس ملک میں عدالتیں ہیں؟اگر ہیں تو کہاں ہیں؟کس لیے ہیں؟کیا ان عدالتوں میں انصاف ہے؟اگر انصاف ہی نہیں تو عدالتیں کس لیے ہیں؟اگر انصاف ہے تو کیا ہمارے لیے نہیں ہیں؟کیا ہمارے لیے کوہی عدالت نہیں؟یا ظالموں کو اپنے عدالتوں پر بھروسہ نہیں ہے؟بھروسہ ہے ہی نہیں اس لیے تو جبراً لاپتہ کیا جارہا ہے۔عدالتوں کے سچے قوانین کو پسے پُشت ڈال کر اپنے بنائے ہوئے بے قاعدہ و بے بنیاد کالے قانونوں کی پیروی کر رہیں ہیں۔اور ہمیں ماؤراہے عدالت میں قتل کرتے ہیں۔ہمارے لیے جزا و سزا تیار کرتے ہیں۔ہمیں ہی مجرم ثابت کرتے ہیں۔ہمیں ملزم قرار دیتے ہیں۔پر یہ کبھی نہیں کہتے کہ ہمارا جرم کیا ہے؟کبھی یہ نہیں کہتے کہ تمہارے اس جرم کی پاداش میں تمہارے لیے یہ سزاہیں سناہی گئ ہیں۔کبھی یہ نہیں کہتے کہ اپنی صفاہی میں دو تین الفاظ بولو۔کبھی یہ نہیں کہتے کہ تم بے گناہ ہو۔کبھی نہیں کہتے کہ تم باعزت بھری ہوگئے۔کبھی یہ نہیں کہتے۔کبھی بھی نہیں۔بس ایک ہی جملہ بار بار دہراتے ہیں کہ تم دہشت گرد ہو،تم مجرم ہو،تم قاتل ہو،تم ملزم ہو۔
کیا اس لیے ہم مجرم ہیں،کیا ہم اس لیے دہشتگرد ہی ،کیا ہم اس لیے گنہگار ہیں،کیا ہمرا گناہ یہ ہے ہم طالب علم ہیں؟کیا ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم کتاب دوست ہیں؟اور ہاں ہم دہشتگرد اس لیے ہیں کیونکہ ہمارے ہاتھوں میں قلم ہیں؟کیا ہم اس لیے مجرم ہیں؟

کیا ہمارا قصور یہ کہ ہمارا کتابوں سے لگاؤ ہیں؟کیا ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا چاہتے ہیں؟کیا ہم اس لیے قصوروار ہے کہ ہم اپنے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں؟کیا اس لیے ہم غدار ہیں کہ ہم نے دو،تین الفاظ اپنے حق کے لیے بولے؟کیا ہمارا جرم یہی ہے کہ ہم کہتے تھے کہ ہم پڑھنا چاہتے ہیں؟کیا ہمارا گناہ یہی ہے کہ ہم بھی اپنے قوم کا مستقبل بننا چاہتے ہیں؟اور ہم بھی دوسروں کی طرح اپنے والد اور والدہ کا نام روشن کرنا چاہتے ہیں؟کیا ہم اس لیے سزا کے حقدار ہیں کہ ہم نادار اور بےبسوں کا سہارا بننا چاہتے تھے؟کیا یہ ہیں ہمارے جرم؟
کیا یہ ہے ہمارا گناہ؟
کیا یہ ہے ہمارا قصور؟
کیا ہم طالب علم ایسے ہی جبراً لاپتہ کیئے جاہینگے؟کیا ہمیں اس طرح ماؤراہے عدالت میں قتل کر دیے جاہیگے؟
کیا ہمیں ڈیتھ اسکواڈ،غدار اور دہشت گرد جیسے ناموں کے ساتھ زلت کی شہادت دینگے؟
کیا ہم اسی طرح کتاب دوست ہونے کی پاداش میں اذیت خانوں میں اپنی دکھ بھری زندگی گزارے گے؟
کیا کوہی ہمارے حق میں کچھ نہیں بولے گا؟
کیا کوہی بھی ہماری بازیابی کے لیے جہدوجہد نہیں کریگا؟
کیا ہمیں آزادی کوہی نہیں دلائے گا؟
کیا ہم جیسے اور بھی طالب علموں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاہیگا؟؟؟
آخر کب تک؟

انسانوں کے معاشرے میں انسانیت کہیں نہیں ہیں۔سچ میں اس معاشرے میں انسان نہیں بلکہ انسان نما درندے ہی رہتے ہیں جو کہ انسانیت کے دشمن ہیں جن کی نظر ہر طالب علم پر پڑی ہوتی ہے کہ موقع ملتے ہی شکار کر لیا۔طالب علم جن کو ملک کی مستقبل کا معمار کہا جاتا ہے ان ہی پر ہی بدترین مظالم کا چلن ہے۔
خدارا طالب علموں کو پڑھنے دیں انہیں ان کا مستقبل روشن کرنے دیں۔انہیں تاریکیوں کے حوالے نہ کریں۔ان کے خوبصورت ہاتھوں میں کتابیں اچھی لگتی ہیں ہتھکڑیاں نہیں۔
انکے ہاتھ سیاہی سے لت پت پیارے لگتے ہیں لہو سے نہیں۔طالب علم تعلیمی اداروں میں اچھے لگتے ہیں اذیت خانوں میں نہیں۔
خدارا طالب علموں کو جینے دیں۔

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *