مبارک قاضی سے واقفیت اور شنا سائی ان کی تخلیقات کے توسط سے ہوئی، رسائل اور مجلوں سے میں نے انہیں دیکھا اور پڑھاریڈیو اور کیسٹ کی دنیا میں ان کی خوبصورت شاعری ابتدائی سے پزیرائی حاصل کرنی شروع کی تھی۔ وقت گزرتا رہا، اس وقتبلوچ طلباء تنظیم بی ایس او تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ فکر، شعور سیاسی و سماجی حوالوں سے بھی بڑی متحرک تنظیمتھی اور بلوچستان اپنے قومی فکری سیاسی سماجی اور جغرافیائی حوالے سے متقاضی تھا کہ اسی تناظر میں سوچنے اورعملکرنے کی ضرورت کہیں زیادہ ہے۔ ایسے ہی حالات میں مبارک قاضی نے فکر اور فن کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرناشروع کردیا تھا اور ابتداء ہی سے ان کی بہت تخلیقات نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرانا شروع کیا۔

بی ایس او نے یقینا ان کےذہنی فکری اور سیاسی سفر میں اہم کردار ادا کیا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری کی کتابیں بھی آنے لگیں۔ اسی دوران وہکوئٹہ بھی آئے۔ان سے ہماری با لمشافہ ملاقاتیں رہیں چونکہ وہ دوست احباب کا وسیع حلقہ رکھتے تھے۔ کوئٹہ میں بھی کسی کے ہاںتو کبھی کسی ہوٹل میں، یا ہوسٹل میں دوستوں کے ساتھ خمار اور سرور کی محفلیں جمائے رکھتے تھے۔ ہم نے عطاشاد، اختر چنال،حفیظ حسن آبادی اور دیگر دوست احباب کے ساتھ ان کی محبتوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ وہ بعد میں بھی کوئٹہ آتے رہے لیکنافسوس ہماری ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ رو مانوی اور مزاحمتی شاعری کے بہت بڑے شاعر کے طور پرجانے اور لے عادی تھے۔ دوغلے پن مانے گئے۔ وہ ایک ملنگ، درویش اور فقیر شاعر تھے۔ ان کا ظاہر درویش اور فقیر اور باطن ایکتھا۔ وہ بات منہ پر کہنے کے سے دور بھا گتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دوغلے پن کے شکار لوگ ان سے نالاں رہتے تھے اور ان کی کوششرہتی تھی کہ ان کا ان سے آمنا سامنا نہ ہو۔ مگر قاضی بھی ایک طرح سے ایک بادشاہ ہی تھا جو اپنے مخصوص گالیوں سے انہیںمخاطب کرتے ہوئے دل کی بھڑاس نکالتے تھے۔ کچھ لوگ یقینا برا مانتے تھے لیکن مجموعی طور پر اس راجی شاعر کے مقام رتبہ اورمحبت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بلکہ ان سے لوگوں کی محبت روز بروز بڑھتی گئی۔ ادبی سیاسی، فکری اور نظریاتی حوالے سے انکا اپنا ایک موقف تھا جس پر وہ ہمیشہ کار بند رہے اور کبھی کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کبھی کبھینظریاتی اور سیاسی معاملات میں سرکاری ادبی اور ثقافتی پروگرام میں لوگوں کی توقعات کے برعکس اپنے دل کی بات مان کہ ت کاجواز بھی تراشتے تھے۔

اس کے علاوہ وہ ہمیشہ بلوچ، بلوچی اور بلوچستان کا کن گاتے رہے۔ جدید بلوچی شاعری میں دیگر کے علاوہعطا شاد ایک بڑے شاعرے کے طور پر جانے اور مانے جاتے ہیں۔ ان کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ان کی شاعری میں بلوچستان ہیبولتا ہے اور انہیں بڑی پزیرائی حاصل ہے اور یہ پزیرائی زیادہ تر علم و ادب کے لوگ اور خاص کر دانش ور طبقہ میں دیکھی گئی ہے۔ان کی شاعری یقینا رباقی رہنے والی شاعری ہے لیکن عام لوگ ان کی شاعری سے کچھ زیادہ واقفیت نہیں رکھتے۔ جب کہ مبارکقاضی وہ شاعر ہے جن کی رومانوی عوامی اور مزاحمتی شاعری عام اور خاص دونوں طبقوں میں پسند کی جاتی ہے۔ عطا نے بھیرومانوی اور مزاحمتی شاعری کی ہے۔ عطا کی مزاحمتی شاعری دھیمے انداز اور ابہام کی صورت سامنے آتی ہے جب کہ قاضی فکراور فن پر مبنی ایک توانا آواز کے ساتھ مزاحمت کا استعارہ بن کر بلوچستان بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے انہیں آشوبیشاعر ۔ کے ساتھ ساتھاباکے لقب سے بھی نوازا ہے۔ گزشتہ دنوں جب 16 دستمبر کو ان کی رحلت کی خبر سامنے آگئی تو بلوچدنیا میں صف ماتم کیا گیا۔ اس خبر کو لوگوں نے بڑی افسردگی کے ساتھ سنا دیکھا اور دل گرفتگی کا اظہار کیا۔ ان کے حوالے سےبہت سارے مواد نے سوشل میڈیا میں جگہ پائی ہے۔ دیگر زبانوں کے ادب شعراء سماجی کارکن اور سیاسی کارکنوں نے بھی انہیںعقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی خدمات کو سراہا ہے۔ یوں تو وہ اپنے دوستوں سے ملنے اپنی ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ دور کرنے کےواسطے کیچ چلے گئے تھے لیکن جب وہاں روح نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا تو وہیں سے ایک تاریخ بھی رقم ہوتی گئی۔

احترام، عزت اورشرف کی تاریخ وہ عزت جو شاید کسی احترام، عزت اور شرف کی تاریخ وہ عزت جو شاید کسی اور کو نہیں ملی ہے، یہ بات اس وقتبھی سامنے آئی جب انہیں آسودہ خاک کیا جارہا تھا تو وہ منظر دیدنی تھا۔ پسنی کے علاوہ بلوچستان کے دیگر شہروں کے ساتھساتھ ایرانی بلوچستان، سندھ، بیرونی ممالک میں بھی ان کی یاد میں تعزیقی پروگرام، خاموش ریلی اور محبتوں کے دیپ جلانے جنمیں حضرات کے ساتھ ساتھ خواتین کی ایک بڑی تعدا د نے شرکت کی ہے۔ اب بھی سوشل میڈیا پر بلوچی کے ساتھ ساتھ ان کیاردو شاعری اور بلوچی تخلیقات کا اردو ترجمہ اشاعت پذیر ہو رہا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ لوگوں نے انہیں ایسے ہی بڑا شاعر نہیں ماناہے۔ اس مقام تک پہنچنا ہر ایک کی بات نہیں۔ بہت بڑے کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ یقینا ماضی، حال اور مستقبل کا شاعر ہے۔ ہمانہیں الوداع نہیں کہیں گے کیونکہ اور ان کی تخلیقات لوگوں میں موجود ہیں۔ وہ نمیران ہیں، انہوں نے ایک اچھے مستقبل کا خوابدیکھا۔ ظلم جبر اور ناانصافی کے خلاف کھڑے رہے۔

اسی سلسلے میں زندانوں میں بھی رہے اور بلوچ معاشرہ بلوچی شاعری روایتکے تحت انکار اور احتجاج کی روایت کو زندہ رکھا۔ وہ اپنے بیٹے کمبر مبارک کی جدوجہد اور قربانی کو اپنی خوش قسمتی سمجھتےتھے۔ وہ لمسل کچھ عرصے سے ان کی طبیعت ناساز چلی آرہی تھی۔ انہوں نے اپنی نگار شایت اور وائس نوٹس میں اس کا بر ملا اظہار بھی کیاتھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے وہ خود بھی کچھ لا پرواہ تھے اور ان کے دوست احباب نے بھی خاص توجہ نہیں دی۔ ایسےلوگ روز پیدا نہیں ہوتے۔ انہیں ابھی جینا تھا۔

قاضی نے کہا تھا

ترجمہ۔

ایسا قاضی جو مبارک بھی ہے

پھر بھی مشکل ہے کہ پیداہو

قاضی کی ایک نظم کو ان کے دوست قطب الفیظ میرساگر نے ترجمہ کیا ہے، ملاخطہ ہو۔

میرے یہ نفمے ہر ایک دیوار و در پہ لکھیں

ہر ایک پتھر پہ ربد نوشتے ضرور سینچیں

کہ آگہی ہووطن پر ستوں کو ہے وطن کیا؟

وطن جو صدیوں سے اپنی آزادی کا نشان ہے

وطن جو ایمان، مہر، مذہب

وطن جو ہر آدمی کی شان ہے

وطن جو انجیل، وید، گیتا، زبور، تورات یا قرآن ہے

وطن مرادوں کی گل زمین ہے

وطن سمین ہے

وطن بہاروں کا رنگین ہے

وطن نہیں ہے تو نہیں ہے کچھ بھی

وطن ہے ہم تم ہیں زندگی ہے

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *