ہم نے ایسے بھی کرداروں کی بابت پڑھا ہے کہ وہ تو چلے گئے لیکن ان کے شبد نے سفر تمام نہیں کیا اور ولیم تھیکرے کی ایک کردار کے مانند مرنے کے بعد بھی اپنی طے شدہ منزل کو پانے میں کامراں ہوتے ہیں۔اس لیے اصل آزمائش تو لفظ کے لیے اس کے تخلیقی سہار کی ہے جو واجہ کے ہاں بھرسک لگن اور شدتِ احساس کی گہری وابستگی کے ساتھ موجود ہے۔

اس لیے اپنے خالق کے جانے کے بعد کس قدر شعری کائنات میں جزب ہو کر اجتماعی حافظہ کا حصہ بن کر جیا کرے گا۔ اس لیے کہتے ہیں کہ سفر کا طے ہونا شرط ہے۔ کیوں کہ اس میں سے ہو کر گزرنا یا سُرخرو ہونا زندگی میں نوشتہ ہے۔اور یہ تخلیقی لفظ اپنے خالق کے سہارے کے بغیر بھی سفر کرنے کی شمتا کا حامل ہے۔

پتا ہے اس سفر کے کسی پڑاؤ میں مجھ ایسے ہیچمداں سے بھی ان کی محبتیں دیکھنے لائق رہیں ۔جو وہ اکثر اس کا اظہار کیے بنا رہ نہیں سکتے۔ اور برملا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔کیوں کہ ان کی محبت میں محض محبت ہی کا دخل رہتا کہ وہ خود ہی اس کا سراپا پرتو تھے۔

یہ تصویر بھی ایک یادگار پروگرام کا حوالہ ہے جب ہم انھیں سید ھاشمی آڈیٹویم آرسی ڈی کلب گوادر میں سُننے آئے اور پھر وہ اپنی باری آنے پر ڈائس پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے آئے تو بہت تلخ باتیں اسٹیج پر موجود ادیب و شاعروں کے بارے میں کہہ ڈالیں ۔جب باتیں ختم کرکے اور درمیان میں وقفہ ہوا تو ھال کے بیچوں بیچ مجھے آتے ہوئے دیکھ کر بغل گیر ہوئے اور میں نے جھٹ بول دیا کہ ان کے حوالے سے ایسا کیوں کیا اور کہا ؟

سید ھاشمی کی یاد میں برنامہ ہے اور آپ نے یہ دفتر کھول دیا۔۔۔۔۔۔اس پر مجھے کہا کہ یہ لوگ انہی باتوں کے مستحق ہیں اور بولنا برحق ہے۔اور مجھے کہا کہ آپ پر قربان جاؤں کہ آپ نے مجھ پر اُس وقت لکھا جب مشرف آمر نے مجھے گرفتار کرکےتربت جیل میں قید کیاتو ادیب وشاعرمصلحت کی چادر اوڑھے نیند لے رہے تھے اور آپ نے ” مبارک نامبارک ہاتھوں میں ” ایک مضمون لکھ دیا ۔جس کو بعدازاں بنیادی محرک سمجھ کر لوگ باگ پھر رہائی کی مہم میں لگ گئے۔البتہ آپ نے سکوت کو توڑ کر اصل میں لفظ کی حرمت کا پاس رکھا اور اپنے لکھنے والے کے ساتھ کھڑے ہوکر تخلیقی وجود کا مان رکھا۔۔تاہم اس بیچ، میں نے کہا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں، آپ تو اس سے برتر سطح کے اعزاز کے لائق ہیں۔مجھ ایسے خاکسارسے جو بن پڑے وہ کرتا رہون گا۔

زندگی کی دھوپ چھاؤں میں یہ کردار مجھ سے کہیں نہ کہیں ضرور ملنے کا اشتیاق ظاہر کرتا اور یہ خاکسار دؤڑا دوڑا چلا جاتا کیونکہ ان کا ہونا ہی ملنے کا اعزاز ہوتا۔
اور پھر بقول لوگوں کے ان سے مل کر ازیت کے سوا کچھ نہیں ملنے والا۔اس لیے نہ ملا کریں بہتر ہے۔لیکن میرا تجربہ اس حوالے سے یکسر مختلف ہے۔ شاید میر تقی نے انہی کے لیے کہا ہوگا کہ

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

اب کے قاضی صاحب کی عمر کی نقدی ختم ہو گئی اور وہ پرلوک سُدھارے۔اور وہ اس سفر میں اور زندگی کی اس ہمہ ہمی میں جو کچھ وہ جی اور لکھ پائے وہ ہماری موجود، معلوم وگزشتہ سےپیوستہ تاریخ کی ایک طرح سے بازگوئی بھی ہے اور اس کو اپنے طور پر اضافہ بھی کر گئے۔
Rest in power and enlightenment #MubarikQazi

Add comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *